نوجوان نسل کوتمباکو کی تباہ کاریوں سے بچانے کیلئے مشترکہ کوششیں کرنی ہونگی، رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر زہرہ فاطمی

40

اسلام آباد۔28فروری  (اے پی پی):رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر زہرہ فاطمی نے کہا ہے کہ نوجوان نسل قوم کا مستقبل ہے ، انھیں تمباکو کی تباہ کاریوں سے بچانے کیلئے مشترکہ کوششیں کرنی ہونگی۔ انھوں نے یہ بات منگل کو یہاں پاکستان نیشنل ہارٹ ایسوسی ایشن (پناہ) کے زیر اہتمام “تمباکو انڈسٹری کے نوجوانوں اور پالیسی  سازوں  کو گمراہ کرنے کے جدید ہتھکنڈے ” کے عنوان سے منعقدہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ ڈاکٹر زہرہ فاطمی نے کہا کہ پناہ ایک بڑے مقصد کیلئے کام کر رہا ہے جس پر قوم کے ہر طبقے کو اس کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔پناہ کے صدر میجر جنرل(ریٹائرڈ) مسعودالرحمن کیانی نے کہا کہ پناہ گذشتہ 40سال سے اپنے ہم وطنوں کو دل اور اس سے متعلقہ بیماریوں سے بچانے کے لیے کوشاں ہے۔ تمباکو نوشی دل، کینسر اور کئی طرح کی دیگر بیماریوں کی سب سے بڑی وجوہات میں سے ایک ہے، ہم تمباکو کی ہلاکت خیزیوں سے قوم کو آگاہ کرنے کے مشن پر کام کر رہے ہیں۔ ٹوبیکو فری کڈز پاکستان کے کنٹری ہیڈ ملک عمران احمد نے کہا کہ تمباکو پہلے ہی بری طرح ہماری نوجوان نسل کو اپنی لپیٹ میں لے چکاہے۔ اب  ویلو اور ہیٹنگ ٹوبیکو پراڈکٹس کی صورت میں نئی چیزیں مارکیٹ میں آ چکی ہیں۔ ان مصنوعات کو انتہائی پرکشش پیکنگ میں مارکیٹ کیا جاتا ہے اور یہ بہت سے فلیورز میں دستیاب ہیں۔ ہم ان اشیاء کی قانون سازی کو مسترد کرتے ہیں۔ راولپنڈی انسٹیٹوٹ آف کارڈیالوجی کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ڈاکٹر انجم جلال نے تمباکو کے نقصانات پر بات کرتے ہوئے کہا  کہ یہ دل اور بہت سی بیماریوں کی بڑی وجوہات میں سے ایک ہے۔ انہوں نے کہا کہ بچوں میں دل کے امراض میں تشویشناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے اور اس کی ایک بڑی وجہ والدین کی تمباکو نوشی اور ان کے اس عمل کے دوران اردگرد فضا میں سانس لینے والے بچے ہیں جنھیں اس کے دھوئیں سے سب سے زیادہ نقصان ہوتا ہے۔ کرنل ڈاکٹر شکیل احمد مرزا نے کہا کہ پاکستان اس وقت تمباکو کے استعمال کے باعث دل اور پھیپھڑوں کے امراض کا گڑھ بنا ہوا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ تمباکو پراڈکٹس کا بہت کم قیمتوں پر دستیاب ہونا ہے ۔ قومی کمیشن برائے حقوق اطفال (این سی آر سی) کی چیئرپرسن افشاں تحسین باجوہ نے کہا کہ تمباکو انڈسٹری کا سب سے بڑا ہدف بچے ہیں۔ تمباکو کی صنعت  تعلیمی اداروں کو خصو صی توجہ دیتی ہے تاکہ ذیادہ سے ذیادہ بچوں کو اس طرف راغب کیا جا سکے۔ دکانوں میں انہیں خصوصی طور پر ان چیزوں کے ساتھ رکھا جاتا ہے جن میں بچوں اور نوجوانوں کی دلچسپی ہوتی ہے۔ ان پر کسی قسم کا کوئی وارننگ سائن نہیں ہوتا کہ یہ پراڈکٹس صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔ اعجاز اکبر نے کہا کہ انڈسٹری یہ دعو یٰ کرتی ہے کہ وہ سالانہ 114ارب روپے کا ٹیکس ادا کرتی ہے جب کہ تمباکو کی وجہ سے ہونے والی بیماریوں پر سالانہ اخراجات کا تخمینہ 615ارب روپے سے زیادہ ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ تمباکو انڈسٹری سے حاصل ہونے والا ریونیو تمباکو کے استعمال سے ہونے والی بیماریوں پر آنے اخراجات کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ افضل بٹ نے کہا کہ پناہ کی نوجوانوں کو تمباکو کی ہلاکت خیزیوں سے بچانے کی کاوشیں قابل تحسین ہیں اور ہم ہر اول دستے کے طور پر پناہ کے ساتھ ہیں۔ پاکستان کی صحافی برادری نئی تمباکو پراڈکٹس کو قانونی کئے جانے کو مسترد کرتی ہے۔ ڈاکٹر ضیاء نے کہا کہ پاکستان میں 2 کروڑ 20لاکھ سے زیادہ ہے لوگ تمباکو نوشی کی لت میں مبتلاء ہیں۔ ہمارے نوجوان بھی تیزی سے اس کی جانب راغب ہو رہے ہیں جس کی ایک بڑی وجہ  سی ایس آر کا غلط استعمال ہے۔ اس کے ذ ریعے انڈسٹری ان ڈائریکٹ طریقے سے اپنی مصنوعات کی تشہیر کر کے بچوں کو اپنی طرف راغب کر تی ہے۔ثناء اللہ گھمن نے کہا کہ روزانہ 1200کے قریب بچے تمباکو نوشی شروع کرتے ہیں۔ پناہ حکومت کے ساتھ مل کر تمباکو نوشی کے نقصانات پر لوگوں کو آگائی فراہم کرنے اور اس کے استعمال میں کمی کے لیے کوشاں تھی کہ یہ صنعت اب نئی ہیٹنگ تمباکو پروڈکٹس مارکیٹ میں لے آئی ہے جسے لیگالائز بھی کر دیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں اس بات کو ذہن میں رکھنا ہوگا کہ تمباکو نوشی منشیات کی جانب پہلا قدم ہے۔  ہم اج اس پلیٹ فارم پر ماہرین صحت، طلباء، صحافیوں اور دیگر مکاتب فکر کے ساتھ مل کر حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ اس فیصلے پر نظر ثانی کی جائے۔آخر میں پناہ کے ایگزیکٹو نائب صدر قیوم نے شرکاء کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے ہمیشہ پناہ کی آواز کو بلند کیا ہے۔ کانفرنس میں پناہ کے صدر میجر جنرل (ر) مسعودالرحمن کیانی، کمپین فار ٹوبیکو فری کڈز کے کنٹڑی ہیڈ ملک عمران احمد، این سی آر سی کی چیر پرسن افشاں تحسین باجوہِ، پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کے صدر افضل بٹ، ہیلتھ اکانومسٹ اعجاز اکبر کے علاوہ سول سوسائٹی، نوجوانوں اورصحافیوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔