اسلام آباد، 22 مئی (اے پی پی ): سابق سینیٹر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے ممتاز رہنما فرحت اللہ بابر نے کہا ہے کہ سرائیکی پاکستان کی ایک بڑی زبان ہے جس میں ایک منفرد مٹھاس اور گہرائی شامل ہے۔
ان خیالات کاظہار انہوں نے عالمی ثقافتی دن کی مناسبت سے سرائیکی ادبی اکیڈمی ، صحرائی سوشل آرگنائزیشن کے زیر اہتمام پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس (پی این سی اے) میں منعقدہ ایک سرائیکی ثقافتی پروگرام سے خطاب میں کیا۔ انہوں نے ثقافتی پروگراموں کے انعقاد کی اہمیت پر زور دیا اور کہا کہ فنون لطیفہ میں تشدد کا مقابلہ کرنے اور معاشرے میں امن اور رواداری پیدا کرنے کی جادوئی طاقت ہے۔حسن بیگ نے کہا کہ سرائیکی ثقافت کا فروغ اتحاد و یکجہتی کا ضامن ، ثقافت کی مقصدیت اور وسعتیں لامحدود ہیں جو قومیں اپنی ثقافت کے ساتھ جڑی رہتی ہیں وہی دنیا میں ترقی کرتی ہیں۔
سرائیکی ثقافتی پروگرام میں جڑواں شہروں میں مقیم سرائیکی دانشور، ادیب ، صحافی، وکلاء ، ڈاکٹرز، طلبہ اور سرائیکی برادری سرائیکی ثقافت کی مٹھاس کا مشاہدہ کرنے کے لیے جمع ہوئی۔
سرائیکی ادبی اکیڈمی کی صدر ڈاکٹر سعدیہ کمال نے اپنے ابتدائی کلمات اور مہمانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ سرائیکی ثقافت کا مقصد جہاں ماضی کو حال سے جوڑ کر اپنی شناخت کا ادراک حاصل کرنا ہے وہاں اس کا مقصد بہترین معاشرے کی تشکیل بھی ہے کیونکہ تہذبی قدروں کے وجود اور ان میں ترقی و تریج سے زندگی میں حرارت بھی پیدا ہوتی ہے اور توازن بھی، فنکار دنیا بھر میں امن کے سفیر سمجھے جاتے ہیں، سرائیکی وسیب میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں۔
صحرائی سوشل آرگنائزیشن کی چیئر پرسن فرحت فاطمہ نے کہا کہ سرائیکی درد اور محبت کی زبان ہے اور صوفیا کرام نے اسلام کا درس اسی زبان سے پھیلایا ہے انہوں نے کہا کہ جو قومیں اپنی ثقافت کو بھول جاتی ہیں وہ صفحہ ہستی سے بھی مٹ جاتی ہیں اس پروگرام کروانے کا مقصد یہ ہے کہ علاقے کے رنگ کواجاگر کیا جائے اور یہاں تمام لوگ جو مختلف سرائیکی علاقے سے تعلق رکھنے والے وہ اپنی خاندانوں کو لا سکیں اور آنے والی نسلوں کو پیغام دیا جاسکے کہ وہ ہماری بات تہذیب تمدن اور سادگی کو آگے لے کر جاسکیں ۔
شہید بھٹو فائونڈیشن کے سی ای او آصف خان کا کہنا تھا کہ آرٹ اینڈ کلچرکسی بھی ملک کا نمایاں رکن ہوتے ہیں جو اس ملک کی ترقی اور خوشحالی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ڈاکٹر مہناج السراج نے کہا کہ ثقافت کسی بھی زبان کا وہ نمایاں پہلو جو اس کو دوسروں سے مختلف بناتا ہے۔
تقریب میں ایک تماشائی ملائکہ ثاقب نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ میں نے دنیا بھر کا سفر کیا ہے اور بہت سی ثقافتوں کی کھوج کی ہے، لیکن سرائیکی ثقافت میں جتنی مٹھاس ہے وہ کسی اور ثقافت میں نہیں ہے۔ اگرچہ میں خود سرائیکی نہیں ہوں، لیکن مجھے سرائیکی ثقافت سے گہرا لگاؤ ہے۔اس کے علاوہ دیگر رہنمائوں ڈاکٹر ایس ایم شاہین، ڈاکٹر مبشر ڈاہا، چیئرمین اپنیک صدیق انظر، رانا ابرار خالد، ڈاکٹر عثمان بلوچ، مدثر بھارانے نے بھی خطاب کیا۔
پروگرام کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا جس کی سعادت سینئر کالم نگار سلطان محمود شاہین نے حاصل کی جب کہ نعت رسول مقبول کی سعادت شاہین بلوچ کے حصے میں آئی۔ پروگرام کے شروع میں ریڈیو پاکستان ملتان کی معروف اورسرائیکی کی لیجنڈ گلوکارہ ثریا ملتانیکر کی آواز میں سرائیکی ترانہ “کھڑی ڈیندی آں سنہیڑا انھاں لوکاں کوں ، اللہ آن وساوے ساڈیاں جھوکاں کوں” کے احترام تمام سامعین کھڑے ہوگئےاور حال میں سکوت طاری ہو گیا۔
اس ثقافتی پروگرام کی نظامت کے پہلے سیشن کی نظامت سرائیکی ادبی اکیڈمی کے سیکرٹری جنرل راقم الحروف شاہد دھریجہ، دوسرے سیشن مشاعرے کی نظامت ریڈیو ٹی وی کے معروف کمپیئر سلیم شہزاد اور تیسرے سیشن محفل موسیقی کی نظامت پی ٹی وی کے معروف سابق کمپیئر نذیر تبسم نےخوبصورت لطیفوں اور چٹکلوں سے سماں باندھے رکھا۔
سرائیکی ادبی اکیڈمی کی صدر ڈاکٹر سعدیہ کمال ، شاہد دھریجہ، صحرائی سوشل آرگنائزیشن کی چیئر پرسن فرحت فاطمہ اور سیکرٹری فنانس عامر نواز نیازی نے تمام تقریب میں شریک معزز مہمانانِ گرامی اور شرکا کو سرائیکی اجرکیں پیش کیں۔جس سے ہال میں سرائیکی وسیب نمائندگی کا عکس چھا گیا۔
سرائیکی شعرائے کرام ڈاکٹر فرحت عباس، سجاد لاکھا، ناصر منگل، رفعت انجم، محمودہ غازیہ، رانا عبدالرب ، طاہر فاروق بلوچ، عابد نیازی، یوسف سانول، خاور لغاری، خالد سعید، سلیم اختر، صفی اللہ سیف، ڈاکٹر عزیز فیصل نے اپنا خوبصورت کلام پیش کر کے لوگوں کے دل موہ لیے جبکہ سینئر شاعر وفاچشتی ، نیئر سرحدی اور راشدہ ماہین ملک نےترنم میں کلام سنا کر خوب داد سمیٹی۔
سرائیکی میوزیشن آرٹسٹ طلبہ نواز آتش، ڈھول پر عامر ، کی بورڈ اآپریٹر فیاض اور آریٹ آپریٹر انیس کی ماہرانہ سنگت پر سرائیکی لوک فنکار یاسر موسیٰ خیلوی، صائمہ راجپوت، ظہیر علی نے اپنی سُر کا جادو جگاتے ہوئے لوک گیت پیش کیے جس پر حاضرین جھومنے پر مجبور ہو گئے۔
سرائیکی طلبہ نے سرائیکی گانوں، ڈھول ، بین اور شرنا کی دھن پر سرائیکی جھومر پیش کیا جبکہ نیشنل آرٹ پرفارمنگ گروپ کی ٹیم نے حضرت خواجہ غلام فرید کے کلام اور راحت ملتانیکر کا گایا ہوا مشہور گیت پیلھوں پکیاں نی وے ، آ چنوں رل یار” اور چولستانی میوزک روح کو ہلا دینے والا شاعرانہ سمپوزیم اور مدھر لوک میوزیکل شو نے نہ صرف سرائیکی ثقافت کی نازک تفصیلات کی عکاسی کی بلکہ سامعین کوسرائیکی وسیب کے ثقافتی دائرے میں بھی غرق کردیا۔
خانزادہ اسفند یار خٹک نے عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی کے مقبول گانے “قمیض تیڈی کالی” پر خوبصورت رقص کر کے سامعین سے دادِ تحسین حاصل کی۔سرائیکی اسٹیج کو بہت ہی دلکش بنایا گیا گیا تھا۔
اسلام آباد کی یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے سرائیکی طلبہ نے کہا کہ دلکش سرائیکی شو کا انعقاد کرنے والے تمام لوگوں کو زبردست خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ شو میں موجود تمام فنکاروں نے پرفارمنگ آرٹس کے ذریعے سرائیکی ثقافت کی عکاسی کی جسے الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں۔