اسلام آباد،16جون (اے پی پی):لوک ورثہ کے زیر اہتمام جاری “ثقافتی میلہ” میں آنے والے مہمانوں کے لیے کئی تفریحی پروگرامز کے علاوہ، ہنرمند وں کے کام کی نمائش دیکھنے والوں کے لیے ایک خاص کشش ہے۔پچاس سے زیادہ دستکار فنکارانہ طور پر تیار کردہ ثقافتی کام میں فعال طور پر اپنے کام کا مظاہرہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، فنون، دستکاری میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہیں۔ وہ اپنی منفرد کاریگری سے دیکھنے والوں کو مسحور کر رہے ہیں۔ نمائش میں موجود دستکاری کڑھائی (ملتانی، بہاولپوری، ہزارہ، سواتی، بلوچی اور سندھی کڑھائی سمیت) بلاک پرنٹنگ، جندری کاکام، کھسہ سازی، مٹی کے برتن، چُنری کا کام، گڑیا سازی، کھدر بنائی، ٹرک آرٹ، لکڑی کی نقش و نگار، نمدا اور گبہ، دھاتی کام، شال کی بنائی، زری کام، موتی کاری، اجرک، سنگ تراشی وغیرہ شامل ہیں۔ لوک ورثہ پاکستانی لوک ثقافت کو فروغ دینے والا ایک اہم ادارہ ہونے کے ناطےصنفی مساوات کی ضرورت سے بخوبی آگاہ ہے جو کہ وقتاً فوقتاً منعقد ہونے والے ہر ایونٹ میں نظر آتی ہے، کیونکہ اس طرح سے مرد اور خواتین دونوں کواپنی صلاحیتوں کے اظہار کے مساوی مواقع میسر ہوتے ہیں۔
ثقافتی میلے میں بھی کئی خواتین کاریگروں کو اپنی مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ ان میں سب سے نمایاں بلوچستان سے تعلق رکھنے والی کنیز فاطمہ ہیں۔ وہ بلوچی کڑھائی کی ماہر دستکارہ ہیں اور اپنے آبائو اجداد کی اس صدیوں پرانی روایت کو آگے بڑھارہی ہیں اور اپنی زندگی کے 30 سے 35 سال اس پیشے کے لیے وقف کر دیے ہیں ۔ وہ اس فن کو آنے والی نسلوں کے لیے بھی مفید بنا رہی ہیں۔
مرد کاریگر بھی اپنے فن کا مظاہرہ کرنے میں عورتوں سے کم نہیں ہیں، ان میں محمد ریاض، جندری کے کام کے ماہر دستکار ہیں ان کا تعلق سلانوالی، پنجاب سے ہے۔ ان کے والد بھی ایک ماہر کاریگر تھے۔وہ ملک بھر میں ہونے والے کئی میلوں اور نمائشوں میں بھی اپنے فن کا مظاہرہ کرتے رہے اور متعدد بار نقد انعامات اور اسناد سے نوازاگیا۔ فیاض کہروڑ پکے کے قدرتی رنگوں کے ذریعے بلاک پرنٹنگ کے ماہر دستکارہیں۔ لکڑی کے بلاک بنانے کے قدیم فن کے مراکز وادی سندھ کے نچلے حصے میں ہیں جو جنوبی پنجاب اور پورے سندھ کو گھیرے ہوئے ہے۔ انہوں نے اپنےخاندان کے دیگر لوگوں کو بھی اس فن کی تربیت دی ۔ پاکستان اپنے بھرپور اور متنوع ورثے کے ساتھ 9,000 سال سے زیادہ پرانی دستکاری کی روایت کا مرکز ہے جو بلوچستان میں مہر گڑھ تہذیب سے ملتی ہے، جس میں مٹی کے برتنوں کی تیاری کے ابتدائی شواہد سامنے آتے ہیں۔
سندھ میں موہنجو دڑو کی وادی سندھ کی تہذیب اور پنجاب کی ہڑپہ تہذیب (5,000 قبل مسیح) کپاس اور اون سے بنے ہوئے کپڑے کی پیداوار کے نقوش کی نشاندہی کرتی ہے۔ پاکستانی دستکاری کی شکل، ڈیزائن اور رنگ میں اب بھی غالب تاریخی اثر بنیادی طور پر ہے۔دستکاری ایک قیمتی مادی ورثے کی نمائندگی کرتی ہے، جو ہماری تاریخی اور عصری ثقافت کا ٹھوس حصہ ہے۔ مغرب کے برعکس، پاکستان میں زیادہ تر روایتی دستکاری نہ تو کوئی پیشہ ہے اور نہ ہی مشغلہ، بلکہ متنوع ثقافتی نمونوں کا ایک لازمی جزو ہے۔ صنعتی دور کا اثر اس دستکاری کے ورثے کو دیہی علاقوں میں بھی حتم کر رہا ہے لیکن شہری گھروں میں دستکاری بطور آرٹ کے استعمال کی طرف ایک حالیہ رجحان ہے۔ ماہر دستکاروں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور سیاحوں اور برآمدی تجارت کے لیے ڈیزائنرز کے ذریعے تاریخی شکلوں اور ڈیزائنوں کو زندہ کیا جا رہا ہے۔