ترقیاتی شراکت داروں کو پائیدار ڈیزاسٹر رسک ریڈکشن کے مقاصد کے حصول کیلئے اپنے وسائل کو یکجا کرتے ہوئے بروئے کار لانا چاہئے؛ محمود اختر چیمہ

20

اسلام آباد،17اگست (اے پی پی):انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر (آئی یو سی این-پاکستان) کے نمائندہ محمود اختر چیمہ نے ماحولیاتی انحطاط کو روکنے کے لئے باہمی تعاون پر مبنی نقطہ نظر اپنانے کی فوری ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ ترقیاتی شراکت داروں کو پائیدار ڈیزاسٹر رسک ریڈکشن کے مقاصد کے حصول کے لئے اپنے وسائل کو یکجا کرتے ہوئے بروئے کار لانا چاہئے۔

  وہ پاکستان ایکسپو آن ڈیزاسٹر رسک ریڈکشن 2023 کے عنوان سے “ماحولیاتی تبدیلی اور ڈی آر آر پر اس کے اثرات” کے موضوع پر گروپ ڈسکشن سے خطاب کر رہے تھے۔  انہوں نے  پاکستان کے لیے ماحولیاتی لحاظ سے ایک لچکدار مستقبل کی تعمیر کے لیے باہمی تعاون اور بامعنی اقدامات پر اتفاق کیا۔ انہوں نے پاکستان کی آب و ہوا کی صورتحال اور خاص طور پر گزشتہ سال میں پیش آنے والی اہم آفات کا ایک جائزہ پیش کیا اور کہا کہ تباہ کن سیلاب نے دو بڑے صوبوں سندھ اور بلوچستان میں بڑے پیمانے پر تباہی مچائی۔ محمود اختر چیمہ  نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کے موسمیاتی تبدیلی کے صنفی ایکشن پلان میں ڈیزاسٹر رسک ریڈکشن پر ایک وقف شدہ سیکشن شامل ہے اور اب اس کے عملی نفاذ کے لیے کوششوں کو یکجا کرنے کا موقع ہے۔  انہوں نے پاکستان میں بائیو ڈائیورسٹی کریڈٹس متعارف کرانے پر بھی زور دیا۔

موسمیاتی تبدیلی کے سینئر ماہر ڈاکٹر غلام رسول نے ایک جامع پریزنٹیشن دی جس نے شرکاء کو پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی اور آفات کے خطرے میں کمی سے منسلک چیلنجوں اور مواقع کا اجتماعی تجزیہ کرنے اور ان سے نمٹنے کے بارے میں غور کرنے کا موقع فراہم کیا۔  پاکستان کے جغرافیائی اور موسمیاتی تنوع سے منسلک چیلنجوں بشمول سیلاب، زلزلے، خشک سالی اور لینڈ سلائیڈنگ کے پیش نظر شرکاء نے اس بات پر زور دیا کہ ایک فعال نقطہ نظر ناگزیر ہے جس میں پیشگی اقدامات، ابتدائی انتباہی نظام، اور کمیونٹی کی شمولیت پر توجہ دی جائے۔

 موسمیاتی تبدیلی کے سینئر ماہر علی توقیر شیخ نے شرکاء کو بلوچستان کے سیلاب زدہ اضلاع کے بارے میں بتایا جو کہ فنڈز کی کمی کی وجہ سے ابھی تک صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی جانب سے تعاون سے محروم ہیں۔ نیشنل ڈیزاسٹر رسک مینجمنٹ فنڈ کی نمائندگی کرتے ہوئے موسمیاتی تبدیلی کے سربراہ محمد فواد حیات نے اس حقیقت پر روشنی ڈالی کہ لچک پیدا کرنے کے لیے پالیسی اور فریم ورک کو لاگو کرنے کی ضرورت ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کی وجہ سے آفات اور خطرات کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے جو دنیا بھر کے ممالک کی مالیات اور مالیاتی گنجائش کو متاثر کر رہی ہے۔ سٹریٹجک مداخلتیں ایک اہم کردار ادا کرتی ہیں، ان مداخلتوں کا بروقت نفاذ کلیدی حیثیت رکھتا ہے تاکہ خطرات کی وجہ سے ہونے والی لاگت کے فرق کو کم کیا جا سکے۔

 کوآرڈینیٹر جنرل کامسٹیک پروفیسر ڈاکٹر ایم اقبال چوہدری نے اختتامی کلمات میں تعاون، کمیونٹی کی شمولیت، ٹیکنالوجی کی شمولیت اور پالیسی ایڈجسٹمنٹ پر زور دیتے ہوئے آگے کے راستے پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ آفات کے خطرے میں ایک مشترکہ ذمہ داری ہے جس میں تمام سماجی شعبوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔