اسلام آباد،2اگست (اے پی پی):سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ریاستی و سرحدی علاقہ جات (سیفران) کا اجلاس کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر ہلال الرحمٰن کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہائوس میں منعقد ہوا جس میں ضم شدہ اضلاع میں پولیس اہلکاروں کی شولڈر پروموشن کے معاملے پر قائمہ کمیٹی کے 14 ستمبر 2021، 29 مارچ 2022 اور 27 ستمبر 2022 کے اجلاسوں میں کیے گئے آبزرویشن اور سفارشات پر عملدرآمد کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔
کمیٹی نے سینیٹر بہرام خان تنگی کی جانب سے اٹھائے گئے عوامی اہمیت کے نکتے پر بھی استفسار کیا کہ خیبر پختونخوا کے ضم شدہ اضلاع میں ڈی ایس پیز، ایس ایچ اوز، ایڈیشنل ایس ایچ اوز وغیرہ کی حیثیت سے تعینات پولیس اہلکاروں کی شولڈر پروموشن سے متعلق رپورٹ کمیٹی کو پیش کی جائے گی. اجلاس کو بتایا گیا کہ سابقہ فاٹا کے صوبہ خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد لیویز/خاصہ داروں کو خیبر پختونخوا پولیس میں ضم کرنے کا مرحلہ وار عمل شروع کیا گیا۔ انضمام کے عمل کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ پورے سابق فاٹا میں ڈی ایس پی یا اس کے مساوی رینک کا کوئی افسر نہیں ہے۔
عہدیدار نے بتایا کہ سابقہ فاٹا ریجن میں مخصوص اصولوں، روایات اور مخصوص قسم کے انتظامی ماحول کی وجہ سے ایف سی میں ریگولر پولیس کے گزیٹیڈ رینکس کو ختم نہیں کیا جاسکتا اور ان خامیوں کو صرف سابق لیویز اور خاصہ داروں کو شولڈر پروموشن کے ذریعے ہی دور کیا جاسکتا ہے۔
اجلاس کو بتایا گیا کہ خیبر پختونخوا لیویز فورس ایکٹ 2019 کے تحت سابق لیویز اور خاصہ داروں کی خیبر پختونخوا پولیس میں شمولیت کے بعد ان کی تصدیق، ترقی، کیریئر کی ترقی سے متعلق امور کو آسان بنانے کے لئے قواعد کا مسودہ تیار کرنے کے لئے سینئر پولیس افسران پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔ کمیٹی میں ڈی آئی جی ہیڈ کوارٹرز خیبر پختونخوا، اے آئی جی/ اسٹیبلشمنٹ اے آئی جی این ایم ڈیز، اے آئی جی/لیگل سی او پی شامل ہیں۔
اجلاس کو بتایا گیا کہ ان قوانین کا بنیادی مقصد سابق لیویز اور خاصہ داروں کے سروس سٹرکچر اور ایسے لیویز اور خاصہ داروں کو مرکزی دھارے میں لانے اور کیریئر کی ترقی سے متعلق ہے۔ اجلاس کو آگاہ کیا گیا کہ یہ معاملہ خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے مزید ضروری کارروائی اور منظوری کے لیے سیکرٹری داخلہ اور قبائلی امور کو پہلے ہی بھجوا دیا گیا ہے۔ عہدیدار نے کمیٹی کو بتایا کہ لکی مروت میں 77 لیویز اہلکاروں کو جعلی ڈومیسائل پر غیر قانونی طور پر پولیس فورس میں ضم کیا گیا اور معاملے کی تحقیقات کے لئے انکوائری کی جارہی ہے اور قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔
کمیٹی کو یہ بھی بتایا گیا کہ نئے ضم شدہ اضلاع میں سینئر رینک کے افسران کی کمی کی وجہ سے سابق لیویز اور خاصہ داروں کو قائم مقام چارج کی بنیاد پر اعلیٰ عہدوں پر تعینات کیا گیا ہے تاکہ ان خامیوں کو دور کیا جاسکے اور فیلڈ کے کام کاج اور سابقہ فاٹا کے اصولوں، ثقافت اور روایات کے مطابق مسائل کو حل کیا جاسکے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ مختلف رینکس میں فرائض سرانجام دینے والے یہ افسران اپنی تنخواہیں اپنی اصل/ حقیقی رینکس میں لے رہے ہیں۔ کمیٹی ممبران نے کہا کہ دی گئی بریفنگ ابھی تک کمیٹی کی سفارشات پر عمل درآمد کو پورا نہیں کرتی ہے جبکہ اس معاملے میں 2 سالوں کے دوران کوئی خاص پیشرفت نہیں ہوئی جس پر حکام کوئی ٹھوس جواب دینے میں ناکام رہے۔
کمیٹی نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق بھی خدمات کی بنیاد پر ترقیاں نہیں دی جاسکتیں اور کہا کہ کمیٹی کی سفارشات پر عمل درآمد نہ ہونے سے کمیٹی کے استحقاق کی خلاف ورزی ہوتی ہے تاہم کمیٹی کا ماننا ہے کہ سابقہ فاٹا کے عوام پر پابندیوں کو سمجھتے ہوئے کمیٹی وزارت کی حمایت اور معاملے کو حل کرنے کو ترجیح دے گی۔ کمیٹی نے شولڈر پروموشن اور قائم مقام چارج کے درمیان فرق کی بھی وضاحت کی جس پر اے آئی جی نے جواب دیا کہ سابقہ فاٹا ایک غیر معمولی کیس ہے اور شولڈر پروموشن ایک انتہائی واضح اصطلاح ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے نتیجے میں ترقیاں واپس کرنا مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ افسران اس عہدے سے وابستہ تمام مالی فوائد اور مراعات لینا شروع کر دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جہاں تک نچلے درجے کے افسر کو ڈی ایس پی کے عہدے پر ترقی دینے کا تعلق ہے تو انہوں نے کہا کہ کمی کی وجہ سے یہ عارضی انتظام ہے اور وہ اب بھی کم عہدے پر تنخواہ لے رہے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر پولیس ایکٹ کے مطابق قوانین پر سختی سے عمل درآمد کیا جائے تو کوئی لیویز اور خاصہ دار کسی بھی ترقی کے اہل نہیں ہیں کیونکہ ان کے پاس مخصوص تربیت اور قابلیت کا فقدان ہے۔
کمیٹی نے خیبرپختونخوا پولیس اور محکمہ داخلہ کی کارکردگی پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے استفسار کیا کہ خاصہ داروں اور لیویز فورس کے اہلکاروں کی تعداد پولیس میں ضم کی گئی جس کا مجوزہ ریکارڈ دستیاب نہیں۔ کمیٹی نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پولیس میں اعلیٰ عہدوں پر جونیئر افسران کی تعیناتی کا کوئی ریکارڈ نہیں، لیویز اور اسپیشل فورس کے متاثرین کے مسائل بھی ابھی تک حل نہیں ہوئے۔ کمیٹی نے محکمہ داخلہ اور خیبر پختونخوا پولیس سے ریکارڈ طلب کرلیا اور عوامی اہمیت کے دونوں معاملات اگلے اجلاس تک ملتوی کر دیئے۔
اجلاس میں سینیٹر ثانیہ نشتر، سینیٹر بہرام الدین خان تنگی، سینیٹر حاجی ہدایت اللہ خان سینیٹر ہدایت اللہ اور سینیٹر سید محمد صابر شاہ نے شرکت کی۔