اوکاڑہ،06نومبر(اے پی پی): اوکاڑہ یونیورسٹی میں امریکی ڈیپارٹمنٹ اور سٹیٹ اور سسٹین ایبل سوشل ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن کے اشتراک سے انسانی سوداگری اور سمگلنگ کے سدباب کے حوالے سے آگاہی سیمینار منعقد ہوا، سیمینار کا اہتمام شعبہ لنگوسٹکس اور سنٹر فار انگلش لینگویج اینڈ لرننگ کے سربراہ ڈاکٹر الیاس محمود نے کیا۔
اس موقع پر ایس ایس ڈی او کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر، سید کوثر عباس نے اندرون اور بیرون ملک ہونے والی انسانی سوداگری کے مختلف پہلووں کی وضاحت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ عورتیں اور بچے سوداگری کے لیے آسان شکار ہوتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس کام میں ملوث افراد عمومی طور پہ نوجوانوں کو ملازمت کا جھانسا دے کر پھانستے ہیں، لوگ آسانی سے اس جھانسے میں پھنس جاتے ہیں اور پھر اپنا پیسہ، عزت اور حتی کہ جان بھی گنوا بیٹھتے ہیں۔ انہوں نے انسانی سوداگری کو روکنے کےلیے بنائے جانے والے قوانین پر بھی سیر حاصل بحث کی۔
سیمینار کے دوسرے مقرر پنجاب یونیورسٹی سے پروفیسر ڈاکٹر فرحان نوید یوسف نے اپنے خطاب میں انسانی سوداگری کے خاتمے کےلیے آگاہی اور انسانی رویوں کی تبدیلی کی اہمیت پہ زور دیا۔ انہوں نے آگاہ کیا کہ آج کل بہت سارے پاکستانی نوجوان بیرون ملک جانے کے خواہش مند ہیں، ایسے نوجوان جعلی ٹریول ایجنٹس کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جو کہ ان سے فراڈ کر کے ان کے جان و مال کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہیں۔ انہوں نے انسانی سوداگری کے خاتمے کےلیے آگہی اور انسانی رویوں کی تبدیلی کی اہمیت پہ زور دیا۔
ڈاکٹر الیاس نے سیمینار کے اختتامی کلمات میں انسانی سوداگری جیسے اہم موضوع کو زیر بحث لانے پہ مقررین کاشکریہ ادا کیا۔انہوں نے اس جرم کا شکار ہونے والے کچھ افراد کی کہانیاں بھی بیان کیں۔ انہوں نے بتایا کہ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے جرائم کی نوعیت بھی بدل چکی ہے۔ انہوں نے اس موقع پر جارج برنارڈشاہ کا قول بیان کیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ “اگر معاشرے سے جرم ختم کرنا ہے تو پہلے غربت ختم کریں”۔
دو سو سے زائد طلباء نے سیمینار میں شرکت کی۔ ایس ایس ڈی او نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ انسانی سوداگری کے مکمل خاتمے کےلیے اس طرح کے آگاہی سیشنز کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا۔