ملک بھر میں زیتون کی کاشت کیلئے سازگار ماحول اور جنگلی زیتون کے کروڑوں درختوں کے بے بہا خزانے موجودہیں، ماہرین

96

اسلام آباد، 30 نومبر(اے پی پی): پاکستان ایک دہائی کے اندر خوردنی تیل کی پیداوار میں خود کفیل بن سکتا ہے اگر ملک بھر میں زیتون کی کاشت کیلئے سازگار ماحول اور کروڑوں جنگلی زیتون کے درختوں کے بے بہا خزانوں سے مستفید ہوا جائے ، علاوہ ازیں ان صلاحیتوںکو بروئے کار لایا جائے تو پاکستان میں زیتون کے تیل کی مقامی پیداوار سے خوردنی تیل کی درآمد پر سالانہ خرچ ہونے والی 4.5 بلین ڈالر کی خطیر رقم بچانے میں مدد مل سکتی ہے اور زیتون کی برآمدات کو بھی فروغ دیا جا سکتا ہے۔ یہ باتیں انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس) میں زیتون کی کاشت میں پاکستان کی بڑھتی ہوئی استعداد پر اظہارِ خیال کیلئے منعقدہ ایک مذاکرے کے دوران کی گئیں۔

 آئی پی ایس کے جی ایم آپریشنز نوفل شاہ رخ کی نظامت میں منعقد ہونے والے اس مذاکرے میں آئی پی ایس کے چیئرمین خالد رحمان، معروف سماجی رہنما اوردعا فاونڈیشن کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر فیاض عالم ،سینئرصحافی شبیر سومرو اور جامعہ کراچی کے ڈیپارٹمنٹ آف فوڈ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر غفران سعید نے اظہارِ خیال کیا۔

 ڈاکٹر فیاض عالم اور شبیر سومرو نے حال ہی میں مشترکہ طور پر پاکستان میں زیتون کی کاشت کی تاریخ، حیثیت اور امکانات پر ایک کتاب بھی مرتب کی ہے۔ “پاکستان میں زیتون کی کاشت ،تاریخ، تجربات اور امکانات ” کے عنوان سے اپنی اس کاوش کا تعارف کرواتے ہوئے شبیر سومرو نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ پاکستان میں تقریباً ساڑھے آٹھ کروڑ جنگلی زیتون کے درخت ہونے کے باوجود مقامی لوگ بھی اس کے بارے میں آگہی کی کمی کے باعث ان سے فائدہ اٹھانے سے قاصر ہیں۔ وسیع تحقیق، ماہرین اور کاشتکاروں کے انٹرویوز، اور کامیاب تجربات کی تفصیلات پر مبنی یہ کتاب آگہی کے اس خلا ءکو دور کرنے کی ایک کاوش ہے۔

 انہوں نے زیتون کے بارے میں ملک گیر آگہی پر زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ کتاب قارئین کو پاکستان کے زیتون کے درختوں کے اندر چھپے بے پناہ امکانات اور فوائد سے روشناس کرانے کی کوشش کرتی ہے۔ ڈاکٹر فیاض عالم نے بارانی علاقوں میں زراعت کے ذریعے ترقی کے امکانات پر زور دیا۔