رمضان کا آخری عشرہ اور اعتکاف کی فضیلت

64

اسلام آباد ، یکم اپریل(اے پی پی ): ماہ  رمضان رحمتوں، برکتوں ، بخشش او ر فضیلتوں کا مہینہ ہے جس  کے آغاز کے ساتھ ہی مسلمانوں میں عبادات کے حوالے سے خصوصی جوش و خروش   نظر آنے لگتا ہے  اور مساجد  کی رونقوں میں بھی اضافہ  ہو جاتا ہے  جو رمضان کے آخری عشرے تک اپنے پورے عروج پر پہنچ جاتا ہے ۔

جہا ں ایک جانب محافل شبینہ  کے دوران قراء حضرات دورہء قرآن  کے زریعے اللہ کا قرب حاصل کرنے کے متمنی ہوتے ہیں  وہیں معتکفین اللہ تعالٰیٰ کی قربت و رضا کے حصول کے لیے دنیاوی جھمیلوں سے بے نیاز گوشہ نشین ہو کر  ماہ مبارک کی رحمتوں، برکتوں اور مغفرت کے لیے  اللہ کے حضورخصوصی  عبادات کا اہتمام کرتے ہوئے  سراپا دعا  ہو جاتے ہیں۔ معتکفین  آخری عشرے کی طاق  راتوں میں شب قدر کی تلاش بھی کرتے ہیں   جس رات کی عبادت  ہزار راتوں  کی عبادت سے افضل ہے ۔

اعتکاف عربی  زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی ٹھہر جانے اور خود کو روک لینے کے ہیں جبکہ اسلامی اصطلاحی حوالے سے اعتکاف  رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں عید کا چاند نظر آنے تک  عبادت کی غرض سےمسجد میں ٹھہرے رہنے کو کہتے ہیں۔

رمضان المبارک کے آخری عشرہ کا اعتکاف مسنون ہے۔ اسے فقہی اعتبار سے سنت مؤکدہ علی الکفایہ کہا جاتا ہے۔ یعنی پورے شہر میں کسی ایک نے کر لیا تو سب کی طرف سے ادا ہو جائے گا ۔ حضرت عبد اﷲ بن عمر سے روایت ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک کے آخری عشرے (دس دن) کا اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔

سورۃ البقرہ کی آیت نمبر216میں اللہ تعالیٰ کا ارشادِ گرامی ہے :’’ اور ہم نے ابراہیمؑ و اسماعیلؑ سے عہد و پیمان لیا کہ وہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں ،اعتکاف بیٹھنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لئے پاک صاف کر دیں‘‘

مردوں کا اعتکاف کا اہتمام مساجد میں کیا جاتا ہے جبکہ  خواتین کے لیے گھر میں نماز پڑھنے کی جگہ (یعنی مسجد البیت) کو بطور اعتکاف گاہ مختص کر لینا جائز ہے۔

ماہ رمضان میں ملنے والی برکتوں میں صلاۃ  تسبیح، سحری اور افطاری کے علاوہ اعتکاف بھی ایک بہت بڑی نعمت ہے جوایک طرف قرب الہی کا ذریعہ ہے تو  وہیں دوسری طرف یہ تربیت نفس کا بھی ذریعہ ہے جس کے ذریعے ہم اپنے دل سے دنیاوی کاموں کا لالچ اور باقی تمام مصروفیات نکال کر اپنے اپ کو صرف اللہ کی عبادت کے لیے وقف کرتے  ہوئے اللہ سے اپنے تعلق کو مضبوط بناتے ہیں ۔