اسلام آباد،04 اپریل (اے پی پی):تھوڑا سا ماضی کے دریچوں میں جھانکیں تو عید کی تیاریوں کا ایک اہم حصہ عید کارڈز کی خریداری بھی رہا کرتی تھی۔ ماہ رمضان کے آغاز کے ساتھ گلیوں ،بازاروں میں عید کارڈز کے سٹال بھی اپنی رنگ جمانا شروع کر دیتے تھے۔ بچے ،بوڑھے ،نوجوان اور خواتین سب ہی اپنے پیاروں اور دوستوں کو بھیجنے کے لیے عید کارڈز کی خریداری میں مہینہ پہلے ہی مصروف ہو جاتے تھے جبکہ رمضان المبارک کے وسط اور آخری عشرے تک پہنچتے پہنچتے ان کی خریداری اپنے عروج کو پہنچ جاتی تھی کیونکہ خریدنے کے بعد انہیں خوبصورت شاعری اور لفظوں سے سجانے کے بعد ڈاک کے ذریعے وقت پر پیاروں تک پہنچانا بھی ایک اہم کام ہوتا تھا،خصوصاً پردیس میں بسنے والے عزیز رشتہ دار تو عید کے موقع پر اپنے وطن میں بسنے والے دوستوں اور گھر والوں کی جانب سے آنے والے عید کارڈز کے خصوصی طور پر منتظر رہا کرتے تھے اسی لیے دوسرے شہروں اور بیرون ملک بسنے والے دوستوں اور رشتہ داروں کو عام ڈاک اور ائیر میل کے ذریعے عید کارڈ پورے اہتمام سے بھجوایا کرتے تھے۔
رنگ برنگے عید کارڈز جہاں اپنوں کو یاد کرنے اور عید کے موقع پر اپنے پیاروں اور رشتہ داروں کو یاد رکھنے اور انہیں مبارکباد بھیجنے کا ذریعہ تھے وہیں ان ان پر لکھے خوبصورت پیغامات اور شاعری بھی پڑھنے والے کا دل موہ لیتے تھے۔
گزشتہ کچھ سالوں میں انٹرنیٹ موبائل فون اور دیگر سہولیات کی ترقی کے باعث عید کارڈز کی روایت بڑی حد تک ماند پڑتی جا رہی ہے کیونکہ اب موبائل فون اور انٹرنیٹ کے ذریعے دور دراز جگہوں پر اور اپنے قریبی عزیزوں کو بھی کم قیمت اور زیادہ آسانی کے ساتھ عید کی مبارکباد دینا ممکن ہے اسی لیے عید کارڈز کی وہ خوبصورت روایت اب آہستہ آہستہ دم توڑتی جا رہی ہے لیکن ماضی کے دریچوں اور ہماری یادوں میں وہ روایت آج بھی اپنی پوری خوبصورتی کے ساتھ زندہ ہے۔