چترال کے علاقہ وادی کیلاش میں ایک ایسا رسم بھی ہے جس میں ایک دن کیلئے بادشاہ بنایا جاتا ہے۔یہ رسم برفانی ہاکی جیتنے کے بعد منایا جاتا ہے جو سینکڑوں سالوں سے جاری ہے۔

196

چترال، 17 مارچ ( اےپی پی): آپ نے قصوں کہانیوں میں بادشاہ کا ذکر تو سنا ہوگا مگر موجودہ وقت میں یہ صرف کہانیوں تک محدود ہے تاہم چترال میں اب بھی ایک ایسا علاقہ ہے جہاں ایک دن کیلئے بادشاہ بنایاجاتا ہے۔وادی بمبوریت کے آحری گاﺅں شیخانندہ میں ہر سال برفانی میدان میں برفانی ہاکی کھیلا جاتا ہے۔ یہ لوگ افغانستان کے صوبہ نوستان سے اس وقت یہاں ہجرت کرکے آگئے جب 1895 کے لگ بھگ افغان حکمران سردار عبد الرحمان اور دیگر حکمرانان ان کو زبردستی مسلمان کراتے۔ تاریح میں ان لوگوں کو ریڈ یعنی سرح کافر کہا گیا ہے جبکہ موجودہ کیلاش کو بلیک یعنی کالا کافر کے نام سے منصوب کیا گیا ہے۔

بعد میں چترال کے مہتر(حکمران) شجاع الملک کے دور حکومت میں یہ لوگ مسلمان ہوئے۔ تاہم ان لوگوں نے نورستان سے آتے وقت چند کھیل اور رسمیں بھی ساتھ لائی۔ جن میں برفانی ہاکی اور بزکشی شامل ہے اور برفانی ہاکی کی فائنل میچ جیتنے کے بعد ٹیم کے کپتان کو تین دن کیلئے بادشاہ بنایاجا تھا جسے مقامی زبان میں مہتر کہلا تاہے تاہم آج کل اس مہتر صرف ایک دن کیلئے بنایاجاتا ہے۔حسب سابق امسال بھی کیلاش برون ٹیم اور مسلمانوں کا شیخانندہ ٹیم کے درمیان زبردست مقابلہ ہوا جس میں شیخانندہ ٹیم نے چار کے مقابلے میں سات گولوں سے برون ٹیم کو شکست دیکر ٹرافی اپنے نام کردی۔احتتامی تقریبات کے موقع پر وزیر اعلےٰ خیبر پحتون خواہ کے اقلیتی امور پر معان حصوصی وزیر زادہ کیلاش مہمان حصوصی تھے جنہوں نے باقاعدہ اعلان کیا کہ وہ علاقے کی روایات کی احترام کرتے ہوئے ایک دن کیلئے مہتر تسلیم کرنے کا اعلان کرتاہوں۔

اس دفعہ فرق اتنا تھا کہ ایک کی بجائے دو بادشاہوں یعنی دو، دو مہتر بنائے گئے۔ مہتر نمبر ۱ شیخانندہ بڑے گاﺅں سے عبدالرﺅف کو چنا گیا جبکہ شیخانندہ چھوٹے گاﺅں سے محمد نصیر کو مہتر نمبر ۲ کے طور پر منتحب کیا گیا۔

ان مہتروں کو گھوڑوں پر سوار کرے کھیل کے میدان سے جلوس کی شکل میں گاﺅں لایاگیا جہاں چھتوں پر کھڑی خواتین اور بچوں نے ان پر مٹھائی اور پھول احترام کے طور پر نچاور کرکے ان کو خوش آمدید کہا۔ جب مہتر سے پوچھا گیا کہ اس مرتبہ دو مہتر کیوں بنائے گئے تو جواب ملا کہ تبدیلی آگئی ہے۔

مہتروں نے پورے گاﺅ ں کا چکر لگایا اور لوگوں کی خیر مقدمی نعروں کا جواب بھی ہاتھ ہلا ہلا کر دئے۔ ان کو ایک مکان میں لایا گیا جہاں انہوں نے قیام کیا اور اپنا کابینہ مقرر کیا جس میں وزیر، مشیر، سیکرٹری ، ایس ایچ او اور سیکورٹی عملہ شامل تھا۔

اس دوران بادشاہ جو بھی حکم کرتا ہے وادی کے لوگ اس کا حکم مانتے ہیں اور نہ ماننے کی صورت میں جرمانہ بھی لگایا جاتا ہے۔ یہ Symbolic یعنی روایتی مہتر (بادشاہ) اس دوران علاقے کی راستے، سڑکیں، پُل وغیرہ لوگوں سے رضاکارانہ طور پر مرمت کرواتے ہیں اور لوگوں میں جو کئی سالوں سے تنازعات چلتے آرہے ہیں ان کو بھی حل کرتے ہیں۔

اس رسم میں مسلمان اور کیلاش دونوں حصہ لیتے ہیں اور سب مل جل کر ایک دوسرے کی خوشی غمی میں شریک ہوتے ہیں جو پیار محبت، اتفاق اور اتحاد کا لازوال مثال ہے ۔ جو بندہ بادشاہ بنتا ہے وہ اپنے طور پر گاﺅں کے لوگوں کیلئے ایک بیل ذبح کرتا ہے اور آنے والے مہمانوں کو گوشت کھلاتا ہے جس میں روایتی طعام جُش بھی شامل ہے جسے سوپ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

علاقے کے لوگ بادشاہ کے سلام کیلئے حاضر ہوتے ہیں اور نہ آنے کی صورت میں ان پر جرمانہ بھی لگایا جاتا ہے۔ دروش سے آئے ہوئے مہمان احسان اللہ، جاوید اختر اور اسرار الدین اس تقریب میں شامل ہوئے تھے مگر انہوں نے مہتر کا سلام نہیں کیا تو ان پر دو ہزار روپے جرمانہ لگایا گیا ۔ اس جرمانہ کو احسان اللہ نے دونوں مہتروں کے ٹوپیوں میں ایک ایک ہزار روپے کا نوٹ رکھ کر ادا کیا ۔ عام طور پر بھی مہتر کے ٹوپی میں ہزار، پانچ سو روپے کے نوٹ سجائے جاتے ہیں ان کو کندھوں پر اٹھا کر لایا جاتا ہے یا پھر گھوڑے پر بٹھاکر میدان سے گھر آتے ہیں اور پورا جلوس ان کے پیچھے ہوتا ہے۔

اس نہایت عجیب و غریب، محصوص اور دلچسپ کھیل اور رسم کو دیکھنے کیلئے کثیر تعداد میں تماشائی بھی آتے ہیں۔ جن کو بادشاہ سلامت کھنا کھلاتا ہے۔ رات بارہ بجے کے بعد بھنا ہوا گوشت روٹی اور روایتی خوراک جش کے ساتھ مہمانوں کو پیش کیا جاتا ہے۔ خدمت کے فرائض کیلاش اور مسلمان دونوں انجام دیتے ہیں۔ ایک مہتر نے بتایا کہ میرا بس چلے تو تمام لوگوں کی غربت حتم کروں اور لوگوں کے تمام مسائل حل کروں۔ اگر ہمارے حقیقی حکمران ان روایتی بادشاہوں کی طرح قوم و ملک کے ساتھ محلص ہوکر ان کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرے تو ملک خداداد میں ہر طرف ہریاہی اور خوشی ہی خوشی ہوگی۔

رات کے وقت بادشاہ سلامت کی Entertainment یعنی اسے محظوظ کرنے کیلئے ثقافتی شو کا بھی اہتمام ہوتا ہے اور یہا ں کے لو گ اپنا روایتی موسیقی پیش کرتے ہیں جس میں کیلاش اور مسلمان دونوں رواتی رقص پیش کرتے ہیں جبکہ تماشائی ا ن کو داد دینے کیلئے تالیاں بجاتے ہیں۔

وادی بمبوریت ، شیخاندہ کی یہ خوبصورتی ہے کہ یہاں صدیوں سے یہ دلچسپ روایات چلتے آرہے ہیں جو شائد دنیا کے کسی کونے میں منایا جاتا ہو۔

نفسا نفسی اور پریشانی کے اس دور میں جہاں ہر بندہ اپنے پیٹ کی تندور بھرنے اور روزمرہ زندگی کے مشکلات میں اتنا پھنسا ہوتا ہے کہ ان کو چند لمحوں کی سکون نصیب نہیں ہوتا ایسے دلچسپ کھیل اور رسموں میں شرکت کرکے بندہ تھوڑی دیر کیلئے غم دوران اور غم جاناں دونوں بھول جاتے ہیں اور کچھ وقت کیلئے سکون اور خوشی محوس کرکے ریلیکس ہوتا ہے جو ذہنی اور جسمانی صحت کیلئے نہایت ضروری ہے۔

وی این ایس، چترال

Download Video