بیل گاڑی دوڑ، صدیوں پرانا اور ایک منفرد کھیل

394

ملتان،27 مئی(اے پی پی): پنجاب بھر میں کھیلے جانے والےبیل گاڑی دوڑ کا کھیل، صدیوں پرانا اور دنیا بھر میں اپنا منفرد مقام رکھتا ہے۔ بیل گاڑی کی دوڑ کیلئے بالکل ہلکی گاڑی بنائی جاتی ہے جس میں پہیے لکڑی کے استعمال ہوتے ہیں اور گاڑی کی مضبوطی اور وزن کم رکھنے کے لیے بانس استعمال کیا جاتا ہے۔

بیل گاڑی کی دوڑ کا شوق رکھنے والے افراد بیل کو خصوصی طور پر اس مقصد کیلئے تیار کرتے ہیں، اس کیلئے وہ اچھی نسل کے بچھڑے حاصل کرتے ہیں، ان کو سبز چارا کم اور دودھ، گھی ،چنے، بنولے اور گندم وغیرہ کا دلیہ زیاده کھلایا جاتا ہے۔پھر ان بچھڑوں کو گاڑی میں جوت کے چلنا سکھایا جاتا ہے،بچھڑوں کی تولیے سے روزانہ مالش کی جاتی ہے جس سے ان کے جسم سے بال اتر جاتے ہیں اور کھال چمکنے لگتی ہے جبکہ ان کے لیے بہت ہی بہترین کپڑے اور کمبل سے لحاف تیار کیے جاتے ہیں,گاؤں میں کسی ایک گھر کے پاس دوڑنے والا اچھا بیل ہو تو یہ سارے گاؤں کا فخر ہوتا ہے۔

بیل دوڑ یوں تو سارے ہی پنجاب کا شوق ہے مگر مختلف اضلاع میں اس کی شکلیں اور اصول و ضوابط مختلف ہوتے ہیں۔،بیل کی نسلیں بھی مختلف  ہوتی ہیں جبکہ خانیوال ملتان کے علاقوں میں ایک بیل والی گاڑی کے مقابلے بھی ہوتے ہیں۔مقابلے والے دن سارے پنجاب سے لوگ اپنے اپنے بیل لے کر میدان کا رخ کرتے ہیں،مقابلوں کے لیے خوب جوڑ توڑ کیا جاتا ہے۔ چونکہ زیادہ تر لوگوں کے پاس ایک ایک بیل ہی ہے تو اپنے بیل کے لیے ہم پلہ بیل تلاش کرنا ،پھر اس کو جوڑی بناکے لے جانا بھی ایک بہت ہی دلچسپ سیاست ہے اور جب کوئی اچھی جوڑی تیار ہوکے میدان میں پہنچتی ہے تو دور دور سے لوگ صرف چند سیکنڈ کی دوڑ دیکھنے آتے ہیں۔اگر کوئی نیا بیل کسی مقابلے میں اچھے اور مشہور بیل کو ہرا دے تو راتوں رات چند ہزار کا بیل لاکھوں میں پہنچ جاتا ہے۔

بیل دوڑ جو خالصتاً غریب کسان کا شوق تھا وہ بھی اب پیسے والوں کے نام ونمود کا ذریعہ بن چکا ہے اور پیسے والے لوگوں بھی اس کھیل پر اپنی اجاره داری قائم کرچکے ہیں جبکہ جانور پالنے والے کسانوں کے لیے بیل دوڑ آج بھی منافع بخش کھیل ہے۔

بیل گاڑی کسی بھی کھیل سے زیادہ خطرناک کھیل ہے،بیل گاڑی دوڑانے والے کو سوار کہا جاتا ہے۔سوار وہ واحد شخص ہوتا ہے جو بیل کے بعد گاڑی کو ہرا سکتا ہے یا جتا سکتا ہے،اچھے سوار چند ہی ہوتے ہیں۔کچھ سوار اپنے مخصوص لوگوں کے بیل ہی دوڑاتے ہیں۔

ایک ہاتھ سے دو منہ زور جانوروں کو قابو میں رکھتے ہوۓ دوسرے ہاتھ سے ان کی پٹائی کرنا اور چھوٹی سی گاڑی پر اپنا توازن برقرار رکھتے ہوئے بیلوں کو سیدھے چلانا انتہائی توجہ طلب اور مہارت کی بلندیوں کا متقاضی کام ہے۔کئی بار دائیں بائیں دوڑتے بیل اپنی لائن چھوڑ کے دوسری گاڑی کے سامنے آ جاتے ہیں یا گاڑی سے ٹکرا جاتے ہیں،کئی بار اپنے ہی بیل اپنی لائن چیرتے ہوۓ کسی کھیت یا خطرناک رستے پر جا نکلتے ہیں، اچھا سوار کبھی بیلوں کو لاوارث نہیں چھوڑتا بلکہ اپنی ہر ممکن کوشش سے بیلوں کو تصادم سے بچانے کی کوشش کرتا ہے۔

اپنی تمام تر خستہ حالی،خطرناکی اور مہنگائی کے باوجود بیل دوڑ ایک بہت ہی اچھی روایت اور صحت مند تفریح ہے، جسے حکومتی  توجہ  اور  اس کھیل میں وقت کیساتھ  جدت لانے  کی ضرورت  ہے۔

اے پی پی /ملتان /حامد