حکومت نے چینی کے ذخائر کی تصدیق کے لئے فزیکل معائنہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے؛ وفاقی وزیر فخر امام ،  شاہ محمود قریشی  اور حماد اظہرکا پریس کانفرنس

331

اسلام آباد،14اکتوبر  (اے پی پی):وفاقی وزیر قومی غذائی تحفظ و تحقیق سید فخر امام نے کہا ہے کہ حکومت ملک میں عام آدمی کو اشیائے خوردونوش کی ارزاں نرخوں پر فراہمی کو یقینی بنائے گی اور اس کے لئے ہر ممکن اقدامات اٹھائے جائیں گے۔ملک میں گندم کے کافی ذخائر موجود ہیں جبکہ  حکومت نے چینی کے ذخائر کی تصدیق کے لئے فزیکل معائنہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

 بدھ کو یہاں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور وزیر برائے صنعت و پیداوار حماد اظہر کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فخر امام نے کہا کہ حکومت ملک میں لوگوں کو درپیش مسائل سے پوری طرح آگاہ ہے اور چیلنجوں پر قابو پانے کے لئے اقدامات اٹھا رہی ہے۔ انہوں نے یقین دلایا کہ حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات کے نتیجہ میں بہت جلد بحالی کے اثرات ظاہر ہوں گے۔ اس کے علاوہ انہوں نے متنبہ کیا کہ فرضی مطالبات اور اشیائے خورد ونوش کے ذخیرہ میں ملوث افراد کے خلاف سخت ایکشن ہوگا۔

 وفاقی وزیر نے کہا کہ مقامی مارکیٹ کے مقابلہ میں گندم کی بین الاقوامی قیمتوں میں تیزی آئی ہے اور اس نے تیسرے فریق کیلئے اجناس کو زائد منافع کے لئے ذخیرہ کرنے کی گنجائش پیدا کی۔ انہوں نے کہا کہ قیمتوں میں ناجائز اضافے اور ذخیرہ اندوزوں اور کارٹیلز کے گٹھ جوڑ کی حوصلہ شکنی کیلئے صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر میکنزم تیار کیا جائے گا۔ مقامی گندم کی صورتحال کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال ملک میں تقریباً 25.25 ملین ٹن گندم کی کٹائی ہوئی جبکہ 27 ملین ٹن گندم کا ہدف مقرر کیا گیا تھا جس میں 1.7 ملین ٹن کی کمی تھی۔ گندم کی کمی کو پورا کرنے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ حکومت نے مقامی سپلائی کو معمول کے مطابق رکھنے کے علاوہ طلب اور رسد میں فرق کو پورا کرنے کیلئے تقریباً 10 لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کا فیصلہ کیا۔

 گندم کی صوبائی پیداوار کے حوالے سے تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پنجاب میں 19.3 ملین ٹن گندم پیدا ہوئی، سندھ میں 3.85 ملین ٹن اور خیبر پختونخوا میں 1.25 ملین ٹن گندم کی پیداوار ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ مقامی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے حکومت نے 8.2 ملین ٹن گندم خریدنے کا فیصلہ کیا جبکہ گزشتہ برس اسی مدت کے دوران 4 ملین ٹن گندم کی خریداری کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ گندم کی کم سے کم سپورٹ پرائس 1400 روپے فی من مقرر کی گئی تھی اور پنجاب نے تقریباً 4 ملین ٹن، پاسکو نے 1.2 ملین ٹن اور بلوچستان نے 90 ہزار ٹن گندم کی خریداری کی۔ سیزن کے دوران تقریباً 6.5 سے 6.6 ملین ٹن گندم کی خریداری کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب نے سپلائی کو معمول کے مطابق رکھنے کے لئے جولائی سے اپنے سرکاری ذخائر سے تقریباً 17 ہزار ٹن یومیہ گندم کی فراہمی جاری رکھی۔ پنجاب اب تک ملوں کو 1.4 ملین ٹن گندم جاری کر چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ نے دوبارہ درخواستوں کے باوجود ملوں کو گندم کی فراہمی تاحال نہیں شروع کی۔ اگر وہ گندم کی فراہمی بروقت شروع کرتا ہے تو کراچی اور اندرون سندھ میں گندم کا بحران پیدا نہیں ہو سکتا۔ تاہم سندھ نے آج فیصلہ کیا ہے کہ وہ 16 اکتوبر سے گندم کی فراہمی شروع کرے گا جس سے طلب اور رسد میں فرق کو برقرار رکھتے ہوئے قیمتوں کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔

انہوں نے کہا کہ درآمدی گندم مقامی مارکیٹوں میں پہنچ گئی ہے کیونکہ سرکاری اور نجی شعبے درآمد کر رہے ہیں، اس کے علاوہ حکومت سے حکومت کے ذریعے درآمد کی جانے والی گندم بھی جلد پہنچ جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں گندم کے کافی ذخائر دستیاب ہیں اور طے شدہ کھیپ کی آمدن پر اس میں مزید اضافہ ہوگا جس سے فرضی طلب اور ذخیرہ اندوزی کی حوصلہ شکنی ہوگی۔

 اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے وزیر برائے صنعت و پیداوار حماد اظہر نے کہا کہ 2011ءمیں یہ کہا گیا تھا کہ برآمدی سرپلس کے طور پر 0.3 ملین ٹن چینی موجود ہے۔ اس سال جولائی میں پنجاب سے تین گنا زیادہ چینی اٹھائی گئی جس کے نتیجہ میں تقریباً دو لاکھ سے تین لاکھ ٹن چینی کا خسارہ ہوا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس کی مختلف وجوہات ہیں جن میں ملوں کی طرف سے غلط اعداد و شمار بھی شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے اسٹاک کی تصدیق کے لئے چینی کا فزیکل معائنہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب تک 55 ہزار ٹن چینی درآمد کی گئی ہے اور مزید ایک لاکھ ٹن آئندہ چند دنوں تک پہنچ جائے گی جس کے نتیجہ میں چینی کی قیمتوں میں 10 روپے سے 15 روپے فی کلو کمی واقع ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ شوگر ملوں سے کہا گیا ہے کہ وہ وقت پر گنے کی کرشنگ کو یقینی بنائیں اور کرشنگ میں تاخیر کرنے والی ملوں پر یومیہ 5 ملین روپے جرمانہ عائد کیا جائے گا۔