شہباز شریف آج کل نیب تحویل میں خفیہ ملاقاتیں کر رہے ہیں؛وزیراعظم کے مشیر برائے احتساب وداخلہ مرزا شہزاد اکبر کی پریس کانفرنس

73

لاہور،15اکتوبر  (اے پی پی):وزیراعظم کے مشیر برائے احتساب وداخلہ مرزا شہزاد اکبر نے کہا کہ سنا ہے شہباز شریف آج کل نیب تحویل میں خفیہ ملاقاتیں کر رہے ہیں،شہباز شریف کاروباری شخصیات کو بلیک میل کرکے پیسے لیتے تھے اورکاروبار کی صورت میں کک بیک کے ذریعے کرپشن کا پیسہ وصول کرتے تھے،ملازمین اور بے نامی لوگوں کے نام پر جعلی کمپنیاں بنائی گئیں اور بے نامی اکاو نٹس سے 22 ارب روپے سے زائد کی منی لانڈرنگ کی گئی، تمام اکاو نٹس سلمان شہباز آپریٹ کرتے تھے، 7 ارب کے اثاثوں سے متعلق ریفرنس دائر ہوچکا ہے ۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعرات کے روزیہاں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ مشیر برائے احتساب وداخلہ شہزاد اکبر نے کہا کہ جب تفتیش ہوتی ہے تو کافی چیزیں سامنے آتی ہیں، آج بھی قوم کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، یہ کاروبار کے بھیس میں کرپشن کرتے تھے، ہمارے پاس واضح ثبوت موجود ہیں، شہباز شریف اور ان کے حواریوں کے پاس کوئی جواب نہیں، عدالت میں شہباز شریف چین کے حبیب جالب نظر آتے ہیں، کرتوت آپ کے پکڑے جا رہے ہیں، الزام مجھ پر لگا رہے ہیں، شہباز شریف نے ٹوائلٹ کے نل سے کیمرے ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ 12 ملازمین کے نام پر 15 ارب سے زائد کی منی لانڈرنگ کی گئی، ڈبل جعلی کمپنیاں بنائی گئیں، ملک مقصود سلمان شہباز کا ٹی بوائے تھا، ملک مقصود کے اکائونٹ میں پیسے ٹرانسفر کرائے گئے، مقصود نامی چپڑاسی کے اکائونٹ سے 3.7 ارب کی منی لانڈرنگ ہوئی، ٹی ٹی کیس کی تحقیقات کے دوران ملک مقصود فرار ہوگیا، گلزار احمد خان کے انتقال کے بعد بھی اکائونٹ آپریٹ ہوتا رہا، مسرور انور ان کا بڑا با اعتماد کیش بوائے تھا، ان سب کو سلمان شہباز آپریٹ کرتا تھا، یہ کوئی کاروبار یا چینی کے پیسے نہیں تھے۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ شہباز شریف نیب کی عدالت میں جا کر ڈرامے کرتے ہیں، ابھی شہباز شریف کے کاروبار کا فرانزک ہونا ہے اس لیے ذہنی اضطراب کا شکار ہیں، نیب کو شریف فیملی کی کرپشن کا ایک اور ریفرنس موصول ہوا ہے، العربیہ شوگر ملز اور رمضان شوگر ملز کے 10 سالہ ریکارڈ کا جائزہ لیا گیا تو بہت ہی حیران کن چیزیں سامنے آئی ہیں کہ ان کمپنیوں کے کم آمدنی والے ملازمین کے نام پر بے نامی اکائونٹس بنائے گئے اور ان اکائونٹس کے ذریعے 22 ارب روپے سے زائد کی منی لانڈرنگ کی گئی۔انہوں نے کہا کہ کم آمدنی والے 12 ملازمین کے نام کھولے گئے بے نامی اکائو نٹس کے ذریعے 15 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کی گئی جبکہ دیگر کچھ ملازمین کے نام پر 7 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کی گئی جو کہ ڈبل فیک کمپنیاں تھیں،شہبازشریف جن فرشتوں کو بھینسوں کا کروڑوں کا دودھ بیچتے تھے وہ سامنے آچکے ہیں،انہوں نے بتایا کہ 2016-17 میں سلمان شہباز کے ذاتی ملازم ملک مقصود نامی شخص کے نام اکائو نٹ کھول کر اس میں 3.7 ارب روپے مختلف کھاتوں سے ڈلوائے گئے، جیسے ہی اس کیس کا آغاز ہوا تو ملک مقصود 2018 ءمیں ملک سے فرار ہو گیا تھا جبکہ دوسرا شخص رمضان شوگر ملز سے 18 سے 20 ہزار روپے تنخواہ لینے وا لا محمد اسلم ہے جس کے نام کھولے گئے اکائونٹس میں 2014ءسے لیکر 2017ءتک 2.3 ارب روپے جمع کرائے گئے۔ رمضان شوگر ملز کے ہی ایک کلرک اظہر عباس کے اکائونٹ میں 2011ءسے لیکر 2014 ءتک 1.67 ارب روپے جمع کرائے گئے، رمضان شوگر ملز کے ایک اور کلرک غلام شبر کے نام پر 2012ءسے لیکر 2014 ءتک 1.57 ارب روپے جمع کرائے گئے۔

مشیر برائے احتساب نے بتایا کہ رمضان شوگر ملز کے ملازم گلزار احمد خان کے نام پر 2012ءسے لیکر 2017ءتک 425 ملین روپے جمع کرائے گئے، دلچسپ بات یہ ہے گلزار احمد خان جو کہ ان کی کمپنی میں نائب قاصد تھا وہ فروری 2015 ءمیں وفات پا چکا تھا، اس کے فوت ہو جانے کے باوجود یہ اکاو نٹ آپریٹ ہوتا رہا اور اس میں پیسے جمع ہوتے رہے، نکلتے رہے اور آگے ٹرانسفر ہوتے رہے۔ انہوں نے مزید انکشاف کیا کہ چھ جعلی کمپنیوں میں 2010ءسے 2018ءتک 7 ارب روپے جمع کروائے گئے ، یہ کمپنیاں ایف بی آر  ،   ایس ای سی پی ، یا رجسٹرار آف فرمز سے رجسٹرڈ ہیں، ان بینک اکائونٹس کو کھلوانے کیلئے جعلی کمپنیوں کے جعلی لیٹر ہیڈز استعمال کئے۔ انہوں نے کہا کہ حاجی نعیم الفخری فرنیچر والا سکنہ چنیوٹ کے نام پر اس کے علم میں لائے بغیر الفخری ٹریڈرز کے نام سے ایک کمپنی اکائونٹ کھلوایا گیا جس میں 2008-10ءکے دوران 2.8 ارب روپے جمع کروائے گئے ، حاجی نعیم الفخری شریف گروپ کے فرنٹ مین کا دوست رہا ہے۔

 انہوں نے کہا کہ 1.32 ارب روپے 2011-13ءکے دوران وارث ٹریڈرز کے اکائونٹ میں جمع کروائے گئے (وارث ٹریڈر محمد وارث جو کہ رمضان شوگر ملز کا ملازم ہے کے نام سے رجسٹرڈ کروائی گئی)۔ انہوں نے کہا کہ 1.24 ارب روپے اکبر ٹریڈرز کے اکائونٹ میں 2010-18ءکے دوران جمع کروائے گئے، یہ ایک اور جعلی کمپنی اکائونٹ ہے جو کہ سید اکبر ولد عبد الحکیم کے نام پر کھلوایا گیا جس کا تاحال کوئی پتہ نہیں ہے (شناخت جعلی ہے) اکائونٹ اوپنگ فارم پر پتہ بھی آفس نمبر 1 ¾ گوہر پلازہ وحدت روڈ لاہور کا ہے جو کہ یہ آفس شریف فیملی کے فرنٹ مین محمد مشتاق کی بیوی کے نام ہے۔ انہوں نے کہا کہ 998 ملین روپے 2010-14 ءکے درمیان راشد ٹریڈرز کے اکائونٹ میں جمع کروائے گئے جس کا پروپرائٹرز راشد بشیر ہے جو کہ ایک جعلی شناخت ہے اور اکائونٹ اوپنگ فارم پر جو ایڈریس دیا گیا ہے وہ شریف فیملی کے فرنٹ مین محمد مشتاق کی رہائش گاہ 466-E کینال ویو ہاﺅسنگ سوسائٹی لاہور کا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 558 ملین روپے جامی انٹرپرائزرز کے اکائونٹ میں جمع کروائے گئے ہیں یہ جعلی کمپنی غضنفر علی کے نام پر رجسٹرڈ ہے جس کا ایک بار پھر پتہ نہ چل سکا ہے، اس پر دیا گیا ایڈریس آفس نمبر 1 ،گوہر پلازہ وحدت روڈ لاہور کا ہے اور دیا گیا رابطہ نمبر بھی ایک طالب علم کا ہے۔

 مشیر برائے احتساب وداخلہ مرزا شہزاد اکبر نے کہا کہ 145 ملین روپے 2008-16ءکے دوران ٹی اینڈ اے ٹریڈرز کے اکاﺅنٹ میں جمع کروائے گئے یہ جعلی کمپنی توقیر الدین اسلم جو کہ رمضان شوگر ملز اور العربیہ شوگر ملز کا سیلز منیجر ہے ¾ کے نام سے رجسٹرڈ ہے۔ یہ کمپنی اکاﺅنٹ توقیر الدین کے علم میں تھا لیکن اس میں جمع کروائی گئی رقم یا اس کے ذرائع سے لا علم تھا۔ انہوں نے کہا کہ متذکرہ بالا جعلی اکائونٹس کھلواتے وقت جعلی دستخط کئے جاتے اور دستخط شدہ چیک بکس شریف گروپ کے ہیڈ آفس 55-K ماڈل ٹائون لاہور بھجوا دی جاتی تھیں، قابل اعتماد کیشئرز /رائیڈرز ان اکائونٹس سے بھاری مقدار میں کیش نکلوانے کیلئے مقرر تھے تاکہ منی ٹریل ختم کی جا سکے۔ مزمل رضا ¾ خضر حیات نظر ، مسرور انور اور شعیب قمر ان کے قابل اعتماد کیش بوائے تھے۔ انہوں نے کہا کہ یہ پیسہ ایک سٹرکچرڈ طریقے سے نکالا گیا جس کا مطلب ہے کہ ہر ٹرانزیکشن دو ملین سے کم رکھی جائے تاکہ یہ ایف ایم یو /سی ٹی آر میکنزم میں ظاہر نہ ہو ، یہ رقم نکلوانے کے بعد شریف گروپ کے ہیڈ آفس میں بھجوا دی جاتی جو کہ قوی امکان ہے کہ یہ رقم حوالہ ہنڈی کے ذریعے بیرون ملک منتقل کر دی گئی۔ انہوں نے بتایا کہ بینک /فنانشل انسٹی ٹیوٹ کم تنخواہ دار ملازمین کے نام پر کھلوائے گئے دیگر خفیہ اکائونٹس کی تلاش پر کام کر رہے ہیں جو کہ منی لانڈرنگ کیلئے استعمال کئے گئے، مزید اکاﺅنٹس کے سامنے آنے کے بھی قوی امکانات ہیں۔

مشیر برائے احتساب وداخلہ نے کہا کہ سلمان شہباز کو ستمبر 2020ءسے ان اکاﺅنٹس کی وضاحت کیلئے طلب کیا جا چکا ہے جو کہ تاحال نہ تو وہ پیش ہوئے ہیں اور نہ ہی انہوں نے انویسٹی گیشن ایجنسی یا کسی فائنانشل انسٹی ٹیوشن میں اپنا جواب جمع کروایا ہے۔انہوں نے کہا کہ میں نے شہباز شریف سے پہلے بھی 18 سوال پوچھے تھے لیکن ان کا جواب نہیں دیا گیا، آج کل تو شہباز شریف نیب کی تحویل میں ہیں اور مکمل فارغ ہیں، ان سے صرف تین سوال پوچھ رہا ہوں۔پہلا سوال یہ کہ کیا آپ مسرور انور اور شعیب قمر کو نہیں جانتے؟ شعیب قمر اور مسرور انور دونوں نیب کی حراست میں ہیں، 20 سے 25 ہزار روپے کے ملازم ہیں اور ان کے ذریعے اربوں روپے کی ٹرانزیکشن کی گئی،دوسرا سوال یہ کہ آپ خادم اعلیٰ تھے اور آپ کو تو ایک ایک چیز کا علم ہوتا تھا تو آپ کو اپنے کاروبار کا نہیں پتہ تھا؟ آپ کو ان چیزوں کا علم نہیں تھا کہ آپ کے اکاو ¿نٹ میں کون پیسے ڈلوا رہا تھا؟تیسرا سوال یہ کہ آپ نے لندن کے 4 فلیٹس کیسے لیے؟ آپ کے اپنے مطابق آپ کے پاس کوئی ذرائع آمدن نہیں ہے تو پھر یہ فلیٹس کیسے لے لئے؟مشیر برائے احتساب وداخلہ نے کہا کہ شہباز شریف کے خاندان کے لوگ لندن میں گزر بسر کیسے کر رہے ہیں؟ کیا آپ کا خاندان سٹیزن شپ حاصل کر چکا ہے، اگر وزٹ ویزے پر ہیں تو وزٹ ویزے پر تو 6 ماہ سے زیادہ نہیں رہ سکتے؟ ۔