غیر مستحکم، افراتفری کا شکار افغانستان ایک بار پھر بین الاقوامی دہشت گردوں کے لئے محفوظ پناہ گاہ بن سکتا ہے، افغانستان کے عوام کی خاطر موجودہ افغان حکومت کومستحکم کیا جائے؛ وزیراعظم عمران خان کا جنرل اسمبلی سے خطاب

31

اسلام آباد،24ستمبر  (اے پی پی):وزیراعظم عمران خان نے  دنیا کو افغانستان میں منڈلاتے ہوئے ایک بڑ ے انسانی بحران  سے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ     غیر مستحکم، افراتفری کا شکار افغانستان ایک بار پھر بین الاقوامی دہشت گردوں کے لئے محفوظ پناہ گاہ بن سکتا ہے لہٰذا  آگے بڑھنے  کا واحد راستہ یہ  ہے کہ افغانستان کے لوگوں کی خاطر موجودہ افغان حکومت کو مضبوط اور مستحکم کیا جائے،  ترقی پذیر ممالک میں کرپٹ حکمران اشرافیہ کی  لوٹ مار کی وجہ سے امیر اور غریب ممالک کے درمیان فرق خطرناک رفتار سے بڑھ رہا ہے، خدشہ ہے کہ غربت کے سمندر میں چند امیر جزائر بھی موسمیاتی تبدیلی جیسی عالمی آفت کی شکل اختیار کرسکتے ہیں ، اسلامو فوبیا کے خطرناک رحجان  کو   مل کر روکنے  کی ضرورت ہے، اس وقت  اسلامو فوبیا کی بدترین اور نہایت سرایت پذیر شکل کا بھارت پر راج ہے، اسلامو فوبیا میں اضافہ کو روکنے کے بارے میں عالمی مکالمے کا اہتمام کیا جائے، مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کے گھنائونے اقدامات جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے مترادف ہیں، جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کا انحصار اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق جموں و کشمیر کے تنازعہ کے حل پر منحصر ہے، کوویڈ وبا، اقتصادی مندی اور موسمیاتی تبدیلی کے سہ جہتی بحران سے نبرد آزما ہونے کیلئے ایک جامع حکمت عملی درکار ہے۔

 ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعہ کی شب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 76ویں اجلاس سے ویڈیو خطاب میں کیا۔ وزیراعظم عمران خان نے اپنے خطاب میں افغانستان کی صورتحال، تنازعہ کشمیر، اسلامو فوبیا، بھارت کی جانب سے انسانی حقوق کی وسیع پیمانے پر خلاف ورزیوں، موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجز، بدعنوانی کے مضمرات، کوویڈ وبا کے اثرات سمیت متعدد موضوعات پر تفصیلی اظہار خیال کیا۔

وزیراعظم نے افغانستان کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کی موجودہ صورتحال کے لئے کسی وجہ سے امریکہ میں سیاستدانوں اور یورپ کے بعض سیاستدانوں نے پاکستان کو ان واقعات کیلئے موردالزام ٹھہرایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس پلیٹ فارم سے میں ان سب کو بتانا چاہتا ہوں کہ نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں جب ہم شامل ہوئے تو افغانستان کے علاوہ جس ملک نے سب سے زیادہ نقصان اٹھایا وہ پاکستان ہے۔

وزیراعظم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے جانی و مالی نقصان کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ 80  ہزار پاکستانی جاں بحق ہوئے ہیں، ہماری معیشت کو 150  ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔35  لاکھ پاکستانی عارضی طور پر بے گھر ہوئے اور ایسا کیوں ہوا؟ 1980 ء کے عشرے میں پاکستان افغانستان پر قبضہ کے خلاف لڑائی میں فرنٹ لائٹ سٹیٹ تھا۔ پاکستان اور امریکہ نے افغانستان کی آزادی کیلئے لڑنے کیلئے مجاہدین گروپوں کو تربیت دی۔ ان مجاہدین گروپوں میں القاعدہ اور دنیا بھر سے مختلف گروپس شامل تھے، وہ مجاہدین تھے، افغان مجاہدین، ان کو ہیرو تصور کیا گیا۔ انہوں نے یاد دلایا کہ صدر رونالڈ ریگن نے 1983 ء میں انہیں وائٹ ہاس میں مدعو کیا اور ایک خبر کے مطابق انہوں نے ان کا امریکہ کے بانیان کے ساتھ تقابل کیا، وہ ہیروز تھے۔ وزیراعظم نے کہا کہ 1989 ء میں سوویت یونین چلا گیا اور اسی طرح امریکہ نے بھی کیا اور افغانستان کو چھوڑ دیا گیا۔ پاکستان کو 50  لاکھ افغان مہاجرین کے ساتھ چھوڑ دیا گیا۔ ہمیں فرقہ وارانہ مسلح گروہوں کے ساتھ چھوڑ دیا گیا جن کا اس سے پہلے کبھی وجود نہیں تھا۔ لیکن بدترین وقت وہ تھا جب ایک سال بعد پاکستان پر امریکہ نے پابندیاں لگا دیں، ایسا محسوس ہوا کہ ہمیں استعمال کیا گیا۔

 وزیراعظم نے کہا کہ نائن الیون کے فوری بعد امریکہ کو ایک بار پھر پاکستان کی ضرورت پیش آئی کیونکہ اب امریکہ کی قیادت میں اتحاد افغانستان پر حملہ آور ہو رہا تھا اور یہ پاکستان کی لاجسٹک سپورٹ کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ اس کے بعد کیا ہوا؟ وہی مجاہدین جنہیں ہم نے تربیت دی تھی کہ غیر ملکی قبضے کے خلاف جنگ ایک مقدس فریضہ، مقدس جنگ یا جہاد ہے، ہمارے خلاف ہو گئے، ہمیں شراکت دار کہا جانے لگا، انہوں نے ہمارے خلاف جہاد کا اعلان کر دیا۔

 وزیراعظم نے کہا کہ افغانستان کی سرحد سے ملحقہ قبائلی پٹی پاکستان کی نیم خود مختار قبائلی پٹی جہاں ہماری آزادی کے بعد سے کوئی پاکستانی فوج وہاں نہیں رہی تھی، وہاں کے لوگوں کی افغان طالبان کے ساتھ شدید ہمدردیاں تھیں جو ان کے مذہبی نظریے کی وجہ سے نہیں بلکہ پختون قومیت کی وجہ سے تھیں جو کہ بہت مضبوط ہے۔ پاکستان میں اس وقت بھی 30 لاکھ افغان پناہ گزین کیمپوں میں مقیم ہیں جو تمام پختون ہیں، 5 لاکھ افغان پناہ گزین بڑے کیمپ میں رہائش پذیر ہیں جبکہ ایک لاکھ کیمپس ہیں۔ ان سب کی افغان طالبان سے وابستگی اور ہمدردی تھی۔ لہٰذا کیا ہوا؟  وہ بھی پاکستان کے خلاف ہو گئے اور پہلی مرتبہ پاکستان میں مسلح طالبان سامنے آئے اور انہوں نے بھی حکومت پاکستان پر حملے کئے۔ جب ہماری فوج ہماری تاریخ میں پہلی بار قبائلی علاقوں میں گئی، جب بھی کوئی فوج سویلین علاقوں میں جاتی ہے وہاں ضمنی نقصان ہوتا ہے۔ لہٰذا ہمیں بھی ضمنی نقصان اٹھانا پڑا۔ جس کی وجہ سے شدت پسند بدلہ لینے پر اتر آئے لیکن صرف اتنا ہی نہیں ہوا۔  دنیا کو معلوم ہونا چاہئے کہ پاکستان میں امریکہ نے 480  ڈرون حملے کئے اور ہم سب جانتے ہیں کہ ڈرون حملے اتنے زیادہ عین مطابق نہیں ہوتے اور ہدف بنائے جانے والے شدت پسندوں کے مقابلہ میں زیادہ ضمنی نقصان کا باعث بنتے ہیں۔  انہوں نے کہا کہ لہٰذا ایسے لوگ جن کے رشتے دار جاں بحق ہو جاتے وہ پاکستان سے بدلہ لینا چاہتے۔ 2004 ء اور 2014 ء کے دوران 50  مختلف مسلح گروہ ریاست پاکستان پر حملہ آور ہو رہے تھے۔ عمران خان نے کہا کہ ایک موقع پر لوگ، ہمارے جیسے لوگ پریشان تھے کہ کیا ہم اس صورتحال سے نکل پائیں گے؟ پاکستان بھر میں بم دھماکے ہو رہے تھے اور ہمارا دارالحکومت ایک قلعہ کی طرح تھا۔ وزیراعظم نے کہا کہ اگر دنیا کی سب سے منظم فوج اور دنیا کی بہترین خفیہ ایجنسیوں میں سے ایک خفیہ ایجنسی نہ ہوتی تو میرے خیال میں پاکستان بہت نیچے چلا جاتا، لہٰذا ہم جب آخرکار یہ سنتے ہیں۔ امریکہ میں ترجمانوں اور ہر اس شخص کے بارے میں جس نے بھی امریکہ کی مدد کی ہے، کی حفاظت کے بارے میں بہت پریشانی پائی جاتی ہے، ہمارے بارے میں کیا خیال ہے؟۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے بہت زیادہ نقصان اٹھانے کی واحد وجہ یہ تھی کہ ہم افغانستان کی جنگ میں امریکہ۔کولیشن کے ایک اتحادی بن گئے۔ افغان سرزمین سے پاکستان پر حملے ہو رہے تھے، کم از کم تحسین کا ایک لفظ تو ادا کیا جانا چاہئے تھا لیکن تحسین کی بجائے، تصور کریں ہمیں کیا محسوس ہوتا ہے جب افغانستان میں پیش ہائے رفت پر ہمیں موردالزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ 2006 ء کے بعد افغانستان اور اس کی تاریخ کو سمجھنے والے ہر شخص پر واضح ہو گیا کہ افغانستان میں کوئی فوجی حل نہیں ہو گا۔ میں امریکہ گیا، میں نے تھنک ٹینک سے بات کی، میں نے اس وقت کے سینیٹر بائیڈن، سینیٹر جان کیری، سینیٹر ہیری ریڈ سے ملاقات کی۔ میں نے ان پر واضح کرنے کی کوشش کی کہ اس کا کوئی فوجی حل نہیں ہو گا اور سیاسی تصفیہ ہی آگے بڑھنے کا راستہ ہے لیکن اس وقت کوئی نہیں سمجھا اور بدقسمتی سے فوجی حل مسلط کرنے کی کوشش جہاں امریکہ سے غلطی ہوئی اور اگر آج دنیا کو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ طالبان واپس اقتدار میں کیوں آئے ہیں، انہیں یہ کرنا ہے کہ اس کا گہرائی سے تجزیہ کرنا چاہئے کہ 3 لاکھ اسلحہ سے لیس افغان فوج نے لڑائی کے بغیر ہتھیارکیوں ڈالے اور یاد رکھیں کہ افغان دنیا کی بہادر اقوام میں سے ایک ہیں۔ اس کا عمیق تجزیہ ہونے پر دنیا جان جائے گی کہ طالبان دوبارہ اقتدار میں کیوں آئے اور یہ پاکستان کی وجہ سے نہیں ہے۔

وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ اب پوری عالمی برادری کو سوچنا چاہئے کہ آگے بڑھنے کا راستہ کیا ہے۔ دو راستے ہیں جو ہم اختیار کر سکتے ہیں۔ اگر ہم ابھی افغانستان کو نظرانداز کر دیتے ہیں تو اقوام متحدہ کے مطابق افغانستان کے آدھے لوگ پہلے ہی انتہائی زد پذیر (غریب) ہیں اور اگلے سال تک افغانستان میں تقریباً 90  فیصد لوگ خط غربت سے نیچے چلے جائیں گے۔ وہاں پر ایک بڑا انسانی بحران منڈلا رہا ہے اور اس کے نہ صرف افغانستان کے پڑوسیوں بلکہ ہر جگہ سنگین اثرات مرتب ہوں گے۔ ایک غیر مستحکم، افراتفری کا شکار افغانستان ایک بار پھر بین الاقوامی دہشت گردوں کے لئے محفوظ پناہ گاہ بن جائے گا اور اسی وجہ سے امریکہ افغانستان آیا تھا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ آگے بڑھنے کا ایک ہی راستہ ہے۔ ہمیں افغانستان کے عوام کی خاطر موجودہ حکومت کو مضبوط اور مستحکم کرنا چاہئے۔ انہوں نے طالبان کے وعدوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ طالبان نے وعدہ کیا ہے کہ وہ انسانی حقوق کا احترام کریں گے، ان کی ایک جامع حکومت ہوگی، وہ اپنی سرزمین دہشت گردوں کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے اور انہوں نے عام معافی دی ہے۔

 وزیراعظم نے کہا کہ اگر عالمی برادری انہیں مراعات دیتی ہے اور ان کی حوصلہ افزائی کرتی ہے تو اس سے ہر ایک کے لئے یکساں طور پر مفید صورتحال ہو گی کیونکہ یہ وہ چار شرائط ہیں جن کے بارے میں دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ اگر دنیا انہیں اس سمت میں جانے کیلئے ترغیب دے سکتی ہے تو افغانستان میں اتحادی افواج کی یہ 20 سالہ موجودگی بہرحال رائیگاں نہیں جائے گی کیونکہ بین الاقوامی دہشت گردوں کی طرف سے افغان سرزمین استعمال نہیں کی جائے گی۔

وزیراعظم نے اس امر پر زور دیا کہ یہ افغانستان کے لئے ایک نازک وقت ہے، وقت ضائع نہیں کر سکتے، وہاں مدد کی ضرورت ہے، وہاں انسانی امداد فوری طور پر دی جانی چاہئے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے جرأت مندانہ اقدامات اٹھائے ہیں۔ وزیراعظم نے اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کے صدر سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ وہ بین الاقوامی برادری کو متحرک کریں اور اس سمت میں آگے بڑھیں۔

 وزیراعظم نے بھارت کے غیر قانونی زیر غیر قبضہ مقبوضہ جموں و کشمیر کی صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ بھارت نے 5 اگست 2019 ء سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں  متعدد غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات اٹھائے۔ اس نے9 لاکھ قابض افواج کے ذریعے دہشت کی فضاء قائم کی ہوئی ہے، کشمیریوں کی سینئر قیادت کو پابند سلاسل رکھا ہوا ہے، میڈیا اور انٹرنیٹ پر سخت پابندیاں عائد کی گئی ہیں، پرامن احتجاج کو پرتشدد طریقے سے دبایا گیا،13  ہزار نوجوان کشمیریوں کو اغوا کیا گیا ہے اور ان میں سے سینکڑوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے، جعلی مقابلوں میں سینکڑوں بے گناہ کشمیریوں کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا ہے اور پورے پورے  پورے محلوں اور دیہات کو تباہ کرکے لوگوں کو اجتماعی سزائیں دی گئی ہیں۔

وزیراعظم نے جنرل اسمبلی کو بتایا کہ ہم نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی سیکورٹی فورسز کی جانب سے انسانی حقوق کی سنگین اور منظم خلاف ورزیوں کے بارے میں ایک تفصیلی ڈوزیئر جاری کیا ہے۔ غیر قانونی کوششوں کے ذریعے جابرانہ ہتھکنڈوں کا مقصد مقبوضہ وادی میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنا اور مسلمان اکثریت کو مسلمان اقلیت میں تبدیل کرنا ہے۔ بھارتی اقدامات جموں و کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی ہیں۔ قراردادوں میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ متنازعہ علاقے کی حتمی حیثیت کا فیصلہ اقوام متحدہ کے تحت  آزادانہ اور غیر جانبدارانہ استصواب رائے کے ذریعے اس کے لوگوں کو کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کے اقدامات چوتھے جنیوا کنونشن سمیت بین الاقوامی انسانی حقوق اور انسانیت سے متعلق قوانین کی خلاف ورزی ہیں اور جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے مترادف ہیں۔

 وزیراعظم نے کہا کہ یہ بدقسمتی اور انتہائی بدقسمتی ہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں دنیا کے نقطہ نظر میں یکساں برتائو کا فقدان ہے اور حتیٰ کہ یہ چنیدہ ہے۔ جغرافیائی و سیاسی عوامل یا کاروباری مفادات، تجارتی مفادات اکثر بڑی طاقتوں کو اپنے ”وابستہ” ممالک کی خلاف ورزیوں کو نظر انداز کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کے دوہرے معیارات بھارت کے معاملے میں سب سے زیادہ واضح اور نمایاں ہیں جہاں پر آر ایس ایس۔بی جے پی حکومت کو تمام تر آزادی کے ساتھ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی اجازت دی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی بربریت کی تازہ ترین مثال عظیم کشمیری رہنما سیّد علی شاہ گیلانی کے جسد خاکی کو ان کے خاندان سے زبردستی چھیننا اور ان کی وصیت اور اسلامی روایت کے مطابق نماز جنازہ کی ادائیگی اور تدفین سے محروم کرنا ہے۔

وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ کسی قانونی یا اخلاقی پابندی سے عاری یہ عمل انسانی شائستگی کی بنیادی اقدار کے بھی منافی ہے۔ وزیراعظم نے جنرل اسمبلی سے یہ مطالبہ کرنے کی درخواست کی کہ مناسب اسلامی رسوم کے ساتھ سیّد علی گیلانی کے جسد خاکی کی شہدا کے قبرستان میں تدفین کی اجازت دی جائے۔ انہوں  نے کہا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ بھی تمام ہمسایہ ممالک کی طرح امن چاہتا ہے لیکن جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کا انحصار اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق جموں و کشمیر کے تنازعہ کے حل پر منحصر ہے۔ انہوں نے کہا کہ گذشتہ سال فروری میں ہم نے کنٹرول لائن پر2003 ء کی جنگ بندی کی مفاہمت کا اعادہ کیا۔ امید تھی کہ یہ نئی دہلی میں حکمت عملی پر نظرثانی کا باعث ہو گی۔ افسوس بی جے پی حکومت نے کشمیر میں ظالمانہ ہتھکنڈے تیز کر دیئے اور ان وحشیانہ کارروائیوں سے ماحول کو خراب کر رہی ہے۔ پاکستان کے ساتھ بامعنی اور نتیجہ خیز رابطے کے لئے سازگار ماحول پیدا کرنے کی ذمہ داری بھارت پر عائد ہوتی ہے  اور اس کے لئے اسے یہ اقدامات کرنا ہوں گے کہ5   اگست 2019 ء سے کئے گئے اپنے یکطرفہ اور غیر قانونی اقدامات واپس لے، کشمیری عوام کے خلاف ظالمانہ کارروائیاں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند  کرے، مقبوضہ وادی میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کے اقدامات کو روکے اور واپس لے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک اور تصادم کو روکنا بھی ضروری ہے۔ بھارت کی فوجی طاقت میں اضافہ، جوہری ہتھیاروں کی تیاری اور غیر مستحکم کرنے والی روایتی صلاحیتوں کا حصول دونوں ممالک کے درمیان باہمی ڈیٹرنس کو سبوتاژ کر سکتا ہے۔

 وزیراعظم نے اسلامو فوبیا کے خطرناک رجحان کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اسلامو فوبیا ایک اور ضرر رساں مظہر ہے جس کی ہم سب کو مل کر روک تھام کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ نائن الیون کے دہشت گرد حملوں کے بعد دہشت گردی کو بعض حلقوں کی طرف سے اسلام کے ساتھ منسوب کیا گیا ہے۔ اس سے دائیں بازو، زینو فوبک اور پرتشدد قومیت پرستی، انتہا پسندی اور دہشت گرد گروپوں کے مسلمانوں کو ہدف بنانے کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔ اقوام متحدہ عالمی انسداد دہشت گردی حکمت عملی نے ان ابھرتے ہوئے خطرات کو تسلیم کیا ہے، ہم امید کرتے ہیں کہ سیکرٹری جنرل کی رپورٹ میں اسلامو فوبیا اور دائیں بازو کے انتہا پسندوں سے درپیش دہشت گردی کے ان نئے خطرات پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔ وزیراعظم نے اقوام متحدہ سیکرٹری جنرل پر زور دیا کہ وہ اسلامو فوبیا میں اضافہ کو روکنے کے بارے میں عالمی مکالمے کا اہتمام کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہماری متوازی کوششیں بین العقیدہ ہم آہنگی کے فروغ کیلئے ہونی چاہئیں اور یہ جاری رہنی چاہئیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ اسلامو فوبیا کی انتہائی بدترین اور  نہایت سرایت پذیر شکل کا اس وقت بھارت پر راج ہے۔ نفرت سے بھرپور ہندوتوا نظریہ نے جس کا پرچار فاشسٹ آر ایس ایس۔بی جے پی حکومت نے کیا ہے، بھارت کی 20 کروڑ مضبوط مسلم برادری میں خوف اور تشدد کی لہر پیدا کی ہوئی ہے۔ گائے کے نام نہاد رکھوالوں  کے جتھوں کے ذریعے لوگوں کو  تشدد کر کے مارنے، اقلیتوں پر حملہ  کرنے کے اکثر واقعات سامنے آتے ہیں جس طرح کہ گزشتہ سال نئی دہلی میں ایک واقعہ ہوا۔ بھارت سے مسلمانوں کو نکالنے کیلئے  امتیازی شہریت قوانین، بھارت بھر میں مساجد کو منہدم کرنے کی مہم  اور مسلمانوں کے ورثہ اور تاریخ کو مٹانے جیسے اقدامات اس مجرمانہ سرگرمی کا حصہ ہیں۔  وزیراعظم عمران خان نے بدعنوانی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ترقی پذیر دنیا کی ان کے کرپٹ حکمران اشرافیہ کی جانب سے لوٹ مار کی وجہ سے امیر اور غریب ممالک کے درمیان فرق خطرناک رفتار سے بڑھ رہا ہے۔

 انہوں نے اس پلیٹ فارم کے ذریعے دنیا کی توجہ ترقی پذیر ممالک سے ناجائز سرمائے کے بہائوکی لعنت کی طرف مبذول کرائے جانے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مالیاتی احتساب، شفافیت اور سالمیت (ایف اے سی ٹی آئی) کے بارے میں سیکرٹری جنرل کے اعلیٰ سطحی پینل نے تخمینہ لگایا ہے کہ سات ٹریلین  ڈالرکے چوری شدہ اثاثہ جات مالیاتی ”محفوظ ٹھکانوں” میں جمع ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ منظم چوری اور اثاثہ جات کی غیر قانونی منتقلی ترقی پذیر اقوام پر گہرے منفی اثرات کی حامل ہے، یہ ان کے پہلے سے محدود وسائل کو ختم کرتی ہے، غربت کی سطح کو مزید گھمبیر بناتی ہے بالخصوص منی لانڈرنگ، کرنسی پر دبائو ڈالتی ہے اور اس کی قدر میں کمی کا باعث بنتی ہے، موجودہ شرح پر جب ایف اے سی ٹی آئی پینل نے تخمینہ لگایا ہے کہ ایک ٹریلین ڈالر سالانہ ترقی پذیر دنیا سے باہر نکالا جاتا ہے تو امیر اقوام کی طرف بڑے پیمانے پر اقتصادی تارکین وطن کا خروج ہو گا۔

 وزیراعظم نے ماضی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جو ایسٹ انڈیا کمپنی نے انڈیا کے ساتھ کیا وہ شاطر حکمران اشرافیہ ترقی پذیر دنیا کے ساتھ کر رہی ہے یعنی دولت کو لوٹ کر مغربی دارالحکومتوں اور آف شور ٹیکس ہیونز میں منتقل کر رہی ہے۔ عمران خان نے کہا کہ ترقی پذیر ممالک سے چرائے گئے اثاثہ جات کو واپس لینا غریب اقوام کیلئے ناممکن ہے۔ متمول ممالک کو یہ ناجائز دولت واپس کرنے سے کوئی ترغیب یا مجبوری نہیں اور یہ ناجائز ذرائع سے جمع کی گئی دولت ترقی پذیر ممالک کے عوام سے تعلق رکھتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ بعید نہیں، ایک وقت آئے گا جب امیر ممالک کو ان غریب ممالک سے معاشی تارکین وطن کو روکنے کیلئے دیواریں کھڑی کرنے پر مجبور ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے خدشہ ہے کہ غربت کے سمندر میں چند امیر جزائر بھی موسمیاتی تبدیلی جیسی عالمی آفت میں تبدیل ہو جائیں گے۔

وزیراعظم نے کہا کہ جنرل اسمبلی کو اس انتہائی پریشان کن اور اخلاقی طور پر ناگوار صورتحال کے تدارک کیلئے بامقصد اقدامات اٹھانے چاہئیں۔ ایسی “پناہ گاہوں”  کو نادم کرنا  اور ایک ناجائز مالیاتی بہائو کو روکنے اور بازیافت کیلئے جامع لیگل فریم ورک وضع کرنا اس سنگین اقتصادی ناانصافی کو روکنے کیلئے نہایت اہم اقدامات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلہ میں کم از کم سیکرٹری جنرل کے ایف اے سی ٹی آئی کی سفارشات پر مکمل عملدرآمد ہونا چاہئے۔  وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی آج ہمارے کرہ ارض کے وجود کو لاحق خطرات میں سے ایک ہے۔ پاکستان کاعالمی  سطح پر مضر  گیسوں کے اخراج  میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے، پھر بھی ہم دنیا میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے10  انتہائی زد پذیر ممالک میں شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اپنی عالمی ذمہ داریوں سے بخوبی آگاہ رہتے ہوئے ہم کایا پلٹ ماحولیاتی پروگراموں، 10  ارب ٹری سونامی کے ذریعے پاکستان میں دوبارہ جنگلات اگانے، قومی ماحول کے تحفظ، قابل تجدیر توانائی کی طرف رجوع کرنے، اپنے شہروں سے آلودگی ختم کرنے اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے موافقت کے راستے پر گامزن ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کوویڈ وبا، اقتصادی مندی اور موسمیاتی ایمرجنسی کے سہ جہتی بحران سے نبرد آزما ہونے کیلئے ہمیں ایک جامع حکمت عملی درکار ہے جو تین امور پر محیط ہونی چاہئے، ویکسین میں مساوات ہو، ہر ایک کو، ہر جگہ کوویڈ کے خلاف جتنی جلدی ممکن ہو سکے ویکسین فراہم کی جانی چاہئے۔ ترقی پذیر ممالک کو مناسب سرمایہ دستیاب ہونا چاہئے، یہ قرضوں کی جامع ری سٹرکچرنگ، توسیع شدہ او ڈی اے، استعمال شدہ ایس ڈی آرز کی تقسیم نو اور ایس ڈی آرز کا وسیع تر حصہ ترقی پذیر ممالک کو مختص کرنے اور کلائمیٹ فنانس کی فراہمی کے ذریعے یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ ہمیں واضح سرمایہ کاری حکمت ہائے عملی اختیار کرنی چاہئے جو تخفیف غربت میں معاون ہوں، روزگار کو فروغ دیں، پائیدار بنیادی ڈھانچہ کو تشکیل دیں اور بلاشبہ ڈیجیٹل تقسیم کے خلاء کو دور کریں۔ وزیراعظم نے تجویز کیا کہ سیکرٹری جنرل پائیدار ترقیاتی اہداف (ایس ڈی جیز) کے جائزے اور تیز تر عملدرآمد کیلئے 2025ء میں ایس ڈی جی سمٹ طلب کرے۔

 وزیراعظم عمران خان نے کورونا کی عالمی وباء کے درپیش چیلنج کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کو کوویڈ۔19، منسلکہ اقتصادی بحران اور ماحولیاتی تبدیلی کے باعث لاحق خطرات کے سہ جہتی چیلنج کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وائرس اقوام اور لوگوں کے درمیان امتیاز نہیں کرتا اور نہ ہی غیر یقینی موسمی حالات سے درپیش آفات یہ تمیز کرتی ہیں۔ آج ہمیں درپیش مشترکہ خطرات نہ صرف بین الاقوامی نظام کی نزاکت کو آشکار کرتے ہیں بلکہ انسانیت کی یکجہتی کو بھی اجاگر کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اﷲ تعالی کے فضل سے پاکستان اب تک کوویڈ وبا سے نبرد آزما ہونے میں کامیاب رہا ہے، ہماری سمارٹ لاک ڈان کی متعین حکمت عملی نے قیمتی جانوں اور روزگار کو بچانے کے ساتھ ساتھ معیشت کو رواں رکھنے میں مدد دی، ہمارے سماجی تحفظ کے پروگرام احساس کے ذریعے ڈیڑھ کروڑ سے زائد خاندانوں کو بچایا گیا۔

 وزیراعظم نے خطاب کے آغاز میں جنرل اسمبلی کے 76ویں اجلاس کی صدارت سنبھالنے پر عبداﷲشاہد کو مبارکباد دی جبکہ ان کے پیشرو وولکن بوزکر کی نمایاں کامیابیوں پر انہیں خراج تحسین پیش کیا۔