ملتان؛ “پاکستان میں انسانی سوداگری  اور جبری مشقت کے خلاف جنگ  اور  جنوبی پنجاب” پر  ڈائیلاگ کا انعقاد

35

ملتان، 26 جولائی (اے پی پی ): سسٹین ایبل سوشل ڈویلپمنٹ آرگنائزیش نے  پاکستان میں انسانی سوداگری  اور جبری مشقت کے خلاف  جنگ  اور  جنوبی پنجاب کے موضوع پر مقامی ہوٹل میں ڈائیلاگ کا انعقاد کیا۔جس میں جنوبی پنجاب کے 11اضلاع سے سول و پولیس افسران،عدلیہ،محکمہ لیبر اور سوشل ویلفئر کے افسران نے شرکت کی ،اس سیشن کا مقصداس مسئلے کے ملک پر مرتب ہونیوالے اثرات کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا تھا۔ سیشن میں   متعلقہ  قوانین،  طریقہ کار ، اس کی نشاندہی اور اس کو روکنے کے لیے سرکاری محکموں کی مدد کرنے میں شہریوں کا کردار پرتبادلہ خیال کیا گیا ۔

سیکرٹری ہاوسنگ جنوبی پنجاب جاوید اختر محمود نے ڈائیلاگ سیشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انسانی سمگلنگ کی بڑی وجہ غربت ہے،غریب ایک اچھے مستقبل کےخواب دیکھنے کی وجہ سے ییومن ٹریفکنگ کا ایندھن بن جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ انسانی سمگلنگ روکنے کے لئے قانون سازی کرنا ہوگی جبکہ غربت کے خاتمہ کے لئے دیگر اقدامات کے علاوہ آبادی پر کنٹرول کرنا ہو گا۔انہوں  نے کہا کہ جبری مشقت اور چائلڈ لیبر کے لئے عملی اقدامات کرنے ہونگے اور اس کے لئے ہر شہری کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

 وائس چانسلر بہاالدین زکریا یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر منصور اکبر کنڈی نے کہا کہ پاکستان میں انسانی  انسانی سمگلنگ کا آغاز 2009 میں ہوا اور سیکس،لیبر اور پیسہ اس کی تین بنیادی وجوہات ہیں۔انہوں نے بتایا انسانی سمگلنگ انسانی اعضاء کے لئے بھی کی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بہاوالدین زکریا یونیورسٹی ہیومن ٹریفکنگ بارے آگاہی دینے کے لئے اپنا بھر پور کردار ادا کرنے کے لئے تیار ہے  ۔

 ڈپٹی سیکرٹری جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ علی عاطف بٹر نے سیشن سے خطاب کرتے ہوئےایس ایس ڈی او  کی کاوشوں کو سراہا اور صوبائی سطح پر افسران  کی صلاحیت کو مضبوط کرنے اور عوام میں آگاہی پیدا کرنے  کے لیے پنجاب حکومت کے ساتھ قریبی رابطہ کاری پر ایس ایس ڈی او کے عہدیداروں کو خراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ  انسانی سوداگری  ایک گھناؤنا جرم ہے جس کو ہر سطح پر مربوط کوششوں کے ذریعے ترجیحاحل کرنے کی ضرورت ہے۔

سیشن میں اے آئی جی رانا اشرف نے  بھی شرکت کی انہوں نے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے پنجاب پولیس کی کاوشوں کی تفصیل بتائی اور بتایا کہ پنجاب پولیس عوام کی خدمت کے عزم کے ساتھ کام کر رہی ہے تاہم ہمیں  کیس کو آگے بڑھانے کے لیے درست اعداد و شمار کے حصول  کے لیے سرکاری محکموں کی طرف سے مسلسل تعاون کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں مقامی سطح پر مزید آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ خود متاثرہ کی رضامندی کے بغیر کوئی بھی مقدمہ نہ درج کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی  چلایا جا سکتا ہے اور کئی بار متاثرہ شخص معاملے کی رپورٹ نہ کرنے کا انتخاب کرتا ہے جس کی وجہ سے ہمارے پاس درج مقدمات کی تعداد بہت  کم ہے۔

ماہر قانون وقار حیدر اعوان نے شرکاء کو انسانی سوداگری  سے نمٹنے کے لیے پاکستان میں قانونی ڈھانچہ کے بارے میں آگاہ کیا اور اس کے ساتھ ساتھ انسانی سوداگری  اور تارکین کی اسمگلنگ کے درمیان فرق کو بھی واضح کیا جو اکثر خلط ملط ہو جاتا ہے اور اس وجہ سے مقدمات کی غلط تشریح کی جاتی ہے۔ . انہوں نے ٹریفک ان پرسنز  ایکٹ 2018 کی کچھ شقوں کی مزید وضاحت  بھی کی انسانی سوداگری  میں جنسی اور جبری مشقت  دونوں شامل ہیں جیسا کہ  اینٹوں کے بھٹے اور زرعی فارم پر کا م کرنے والے۔

 اجلاس میں ضلعی انتظامیہ، پنجاب پولیس، لیبر ڈیپارٹمنٹ، پراسیکیوشن اور اکیڈمیا سمیت مختلف محکموں کے افسران نے شرکت کی۔ سیشن کا مقصد انسانی سوداگری کے حوالے سے پاکستان کو درپیش چیلنجز پر بات چیت کرنا تھا۔

سیشن میں اس لعنت سے لڑنے میں پاکستان کی پیشرفت پر بھی روشنی ڈالی گئی اور اس بات پر بھی آگاہ کیاگیا  کہ امریکی محکمہ خارجہ کے دفتر برائے مانیٹرنگ اینڈ کمبیٹ ٹریفکنگ ان پرسنز رپورٹ 19 جولائی 2022 کو شائع ہوئی جس کے نتیجے میں اب پاکستان کو “ٹیئر 2 واچ لسٹ” سے “ٹیئر 2” میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ حکومت پاکستان کی طرف سے کی گئی کوششیں  اورعوام میں بیداری میں اضافے کی وجہ سے رپورٹ ہونے والے کیسز کی تعداد میں اضافے اور پراسیکیوشن کی طرف بہتر اقدامات پر بھی روشنی ڈالی گئی۔

ایس ایس ڈی او کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر سید کوثر عباس نے کہا کہ ایس ایس ڈی او انسانی سوداگری  کی روک تھام کے منصوبے پر عمل درآمد کر رہا ہے تاکہ معاشرے میں اس  گھناؤنے جرم کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے میں اپنا کردار ادا کیا جا سکے اور اس مقصد کے لیے اسٹیک ہولڈرز  کے  ورکنگ گروپ بنائے گئے تاکہ زمینی سطح پر کام کو بہتر بنانے میں مدد مل سکے اور قوانین اور دیگر پالیسیوں کے نفاذ کو یقینی بنانا اور ضرورت کے مطابق ان کی بہتری لائی جا سکے۔