سابق سفیر ضمیر اکرم کی تصنیف کردہ کتاب ” دی سیکیورٹی ایمپیریٹو – پاکستان کی نیوکلیئر ڈیٹرنس اور ڈپلومیسی” کی تقریب رونمائی

10

اسلام آباد،22مارچ  (اے پی پی):انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز  میں سابق سفیر ضمیر اکرم کی تصنیف کردہ کتاب ” دی سکیورٹی ایمپیریٹو – پاکستان کی نیوکلیئر ڈیٹرنس اور ڈپلومیسی” کی تقریب رونمائی ہوئی۔ جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے سابق چیئرمین جنرل (ر) زبیر محمود حیات نے بھی تقریب میں شرکت کی۔ تقریب میں ماہرین تعلیم، پاکستانی سفارت کاروں، تھنک ٹینکس اور پاکستان میں غیر ملکی سفارتی کور کے ارکان کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

 اپنے استقبالیہ کلمات میں ڈی جی انسی ٹیوٹ آف سٹریٹجک  سٹڈیز سہیل محمود نے ضمیر اکرم کی 38 سال پر محیط سفارتی کیرئیر کے دوران جوہری سفارت کاری کے شعبے میں گراں قدر خدمات کو سراہا۔ انہوں نے کہا کہ جوہری ڈیٹرنس کی بھارت کے جوہری ہتھیاروں سے پیدا ہونے والے وجودی خطرے کے لیے پاکستان کا ناگزیر ردعمل ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نےجنوبی ایشیا  ء میں اسٹریٹجک استحکام کو برقرار رکھنے کی کوششوں کو تقویت دی ہے۔

سہیل محمود نے کہا کہ ضمیر اکرم کی کتاب کا تصوراتی فریم ورک واضح اور غیر مبہم ہے، یہ سلامتی کی ناگزیریت ہے جو واحد طور پر پاکستان کے نیوکلیئر ڈیٹرنس کے حصول کو آگے بڑھاتی ہے۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ یہ کتاب پاکستان کے سفارت کاروں کی خدمات کو واضح کرتی ہے اور اس اہم موضوع پر ایک مخصوص پاکستانی نقطہ نظر پیش کرتی ہے۔

اپنے کلیدی خطاب میں جنرل (ر) زبیر محمود حیات نے کہا کہ پاکستان کے لیے سیکیورٹی خطرہ حقیقی اور وجودی دونوں طرح کا ہے، بھارت دنیا کا سب سے بڑا جوہری ‘بلیک ہول’ ہے جس نے جنوبی ایشیا اور بحر ہند میں جوہری ہتھیار متعارف کرائے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ضمیر اکرم نے پاکستان کے بیانیے کو موثر انداز میں پیش کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کتاب کا نچوڑ یہ ہے کہ کس طرح سفارت کاری جوہری سفارت کاری میں تبدیل ہو کر قومی پالیسی کی حمایت کرتی ہے۔

 اسٹرٹیجک پلانز ڈویژن کے مشیر میجر جنرل (ر) اوصاف علی نے کہا کہ یہ کتاب پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے تقریباً تمام پہلوؤں کو واضح کرتی ہے۔ اس میں پاکستانی انجینئرز اور سائنسدانوں کو درپیش تکنیکی، مالی اور سیکورٹی چیلنجز کو اجاگر کیا گیا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کتاب اس بات کی داستان ہے کہ کس طرح ہمارے ہنر مند سفارت کاروں نے غیر دوستانہ ماحول میں اہم دارالحکومتوں اور مختلف کثیرالجہتی فورمز پر خاموشی سے لیکن کامیابی کے ساتھ پاکستان کے ایٹمی مستقبل کا مقابلہ، تحفظ اور اس کا تعین کیا۔

 ضمیر اکرم نے جوہری دائرے میں پاکستان کے ساتھ متعصبانہ اور غیر منصفانہ سلوک کو اجاگر کیا۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ پاکستان نے بارہا واضح کیا ہے کہ اس کے جوہری پروگرام کی ترقی ایک سکیورٹی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو اپنی روایتی اور جوہری صلاحیتوں کو مسلسل بڑھانا چاہیے تاکہ بھارت کی جوہری ’بلیک میل‘ سے بچا جاسکے۔