افغان حکومت اس وقت  مشکل دورا ہے پر ہے ،   تعاون اورقبولیت کی خواہاں ہے،   وزیراعظم عمران خان کا ”سی این این” کو انٹرویو

22

اسلام آباد۔15ستمبر  (اے پی پی):وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ افغانستان اس وقت تاریخ کے مشکل دوراہے پر ہے، موجودہ افغان حکومت عالمی برادری سے تعاون و مدد  اور قبولیت کی خواہاں ہے،  افغان عوام کی تاریخ ہے کہ انہوں نے کبھی کسی کٹھ پتلی حکومت کو قبول نہیں کیا اور نہ ہی افغانستان کو باہر بیٹھ کر کنٹرول کیا جا سکتا ہے، پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھاری جانی و مالی نقصان اٹھایا ہے، پاکستان کسی اور کی جنگ لڑنے کا متحمل نہیں ہو سکتا، ہم امریکہ کے ساتھ ویسے ہی تعلقات چاہتے ہیں جیسے اس کے بھارت کے ساتھ ہیں، افغانستان میں افراتفری سے پاکستان کو دہشت گردی اور مزید پناہ گزینوں کی پریشانی ہے۔ بدھ کو امریکی نشریاتی ادارے ”سی این این” کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیرِاعظم عمران خان نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ افغانستان ایک تاریخ کے مشکل دوراہے پر ہے، ہماری دعا ہے کہ یہ 40  سال بعد امن کی راہ پر چل پڑے، اگر طالبان تمام دھڑوں کو ساتھ لے کر حکومت بنائیں تو یہ ممکن ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے برعکس اگر دوسرا راستہ اختیار کیا گیا تو ایک بہت بڑا انسانی بحران پیدا ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جس مقصد کیلئے امریکہ افغانستان آیا تھا وہ عالمی دہشت گردوں کا خاتمہ تھا۔ وزیراعظم نے کہا کہ افغانستان غیر مستحکم ہونے کی صورت میں امکان ہے کہ افغانستان دوبارہ دہشت گردوں کے لئے محفوظ ٹھکانہ بن سکتا ہے، ہم یہ توقع اور دعا کرتے ہیں کہ 40 سال بعد یہاں امن قائم ہو۔ تاہم   اس وقت افغانستان  کے حوالے  سے  کوئی بھی پیش گوئی نہیں  کی جا سکتی۔ وزیراعظم نے کہا کہ یہاں ایک اور غلطی فہمی ہے کہ افغانستان کو باہر سے ہو کر کنٹرول کیا جا سکتا ہے، یہ ایک تاریخ ہے کہ افغانستان کے عوام نے کسی کٹھ پتلی حکومت کی حمایت نہیں کی، اسے عوام میں اچھا تصور نہیں کیا جاتا، اس لئے یہاں بیٹھ کر یہ سوچنا کہ ہم نے کیسے کنٹرول کرنا ہے اس کی بجائے ہمیں ان کی مدد کرنی چاہئے۔ وزیراعظم نے کہا کہ افغانستان کی صورتحال تشویشناک ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر طالبان جامع حکومت کیلئے کام کرنا چاہتے ہیں، افغانستان کے تمام دھڑوں کو اکٹھا کرنا چاہتے ہیں اگر وہ اپنے مطابق خواتین کو حقوق دینا چاہتے ہیں، وہ انسانی حقوق چاہتے ہیں اور وہ عام معافی دینا چاہتے ہیں تو وہ واضح طور پر عالمی سطح پر قبولیت چاہتے ہیں۔ افغانستان کی موجودہ حکومت جس طرح واضح طور پر یہ محسوس کرتی ہے کہ عالمی مدد کے بغیر وہ بحران کو نہیں روک سکتی ہمیں ان کی مدد کرنی چاہئے اور انہیں درست سمت میں آگے لے جانا چاہئے۔ خواتین کے حقوق سے متعلق ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ سوچنا غلطی ہے کہ باہر سے بیٹھ کر کوئی افغان خواتین کو حقوق دے سکتا ہے، افغان خواتین طاقتور ہیں اور انہیں وقت دیا جائے، افغان خواتین کو اپنی صلاحیتوں کے مطابق کام کرنے کی آزادی ہونی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کسی اور کی جنگ لڑنے کا متحمل نہیں ہو سکتا