سکھر؛ “کلین دی انڈس ریور” کے عنوان سے تقریب،مقررین نے دریائے سندھ کو “پاکستان کی لائف لائن” قرار دیا

18

سکھر،26ستمبر(اے پی پی):سادھو بیلہ کے دریا کے کنارے پر سندھ رورل سپورٹ آرگنائزیشن (سرسو)، ورلڈ وائیڈ فنڈ (WWF) حکومت سندھ کے تعاون سے وزارت موسمیاتی تبدیلی اور لونگ انڈس ٹیم کی جانب سے“کلین دی انڈس ریور” کے عنوان سے تقریب کا انعقاد کیا گیا۔

 اس موقع پر مقررین نے دریائے سندھ کو “پاکستان کی لائف لائن” قرار دیتے ہوئے کہا کہ لونگ انڈس کے اقدام بیسن کے قدرتی وسائل اور ماحولیاتی نظام کی بحالی اور مرمت کی امید رکھتے ہیں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ موسمیاتی تبدیلیوں کے لیے لچکدار ہیں۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سکھر کے ڈپٹی میئر ڈاکٹر ارشد مغل نے کہا کہ ہمیں پلاسٹک کے استعمال کو صفر تک کم کرنا چاہیے اور متبادل ذرائع کو اپنانا چاہیے، لوگوں کو پلاسٹک سے پاک طریقوں کو فروغ دینے کے لیے حکومت  اور میونسپل کارپوریشن کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے، آلودگی کے خاتمہ اور صفائی کے سلسلے میں انہوں نے اپنی زیادہ سے زیادہ تعاون کا یقین دلایا۔

انڈس لونگ انیشیٹوز، اقوام متحدہ کی پروگرام منیجر حمیرا جہانزیب نے کہا کہ دریائے سندھ سالانہ 164,332 ٹن پلاسٹک فضلہ (سمندر میں) ڈالتا ہے اور ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں سالانہ 624,200 ٹن پلاسٹک تیار کیا جا رہا ہے جس میں تقریباً 6000 پلاسٹک کی مصنوعات بنانے والے ہیں۔انہوں نے کہا کہ لیونگ انڈس انیشیٹیو کا مقصد سندھ طاس میں پائے جانے والے متنوع قدرتی ماحولیاتی نظام کی حفاظت، تحفظ اور بحالی بشمول زمینی، میٹھے پانی، ساحلی اور سمندری ماحول کے لیے ہے۔

یوسی چیئرمین طارق چوہان نے کہا کہ پلاسٹک کی تیاری میں استعمال ہونے والے بڑے کیمیکلز انتہائی زہریلے ہیں اور انہیں صدیوں میں بھی زمین ہضم نہیں کر سکتی یہی وجہ ہے کہ اس سے زمین پر موجود تمام انواع کے جانداروں کو شدید خطرہ لاحق ہے۔

سرسو کے سینئر منیجر شاہ زیب حسین مہر نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان کی پلاسٹک مینوفیکچرنگ انڈسٹری سالانہ 15 فیصد کی اوسط شرح نمو سے ترقی کر رہی ہے، دنیا بھر میں ممالک اور سمندروں کو پلاسٹک سے پاک بنانے کی مہم زور پکڑ رہی ہے۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اگر ہم بڑھتے ہوئے موسمیاتی تناؤ سے نمٹنا چاہتے ہیں تو اس کے مرتے ہوئے ماحولیات کو زندہ کرنا بہت ضروری ہے۔انہوں نے کہا کہ سرسو آلودگی سے پاک خطے کے لیے کام کر رہا ہے اور سندھ بھر میں کمیونٹیز کے ساتھ مل کر سیمینارز، آگاہی ریلیاں اور دیگر سرگرمیاں منعقد کی جاتی ہیں۔

ورلڈ وائیڈ فنڈ سکھر چیپٹر کی نمائندگی کرتے ہوئے توحید غنی مہیسر نے ڈیٹا شیئر کرتے ہوئے کہا کہ سالانہ تقریباً 80 لاکھ ٹن پلاسٹک دنیا بھر میں سمندروں میں داخل ہوتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ سمندری کچرے میں پلاسٹک کا حصہ 60 سے 80 فیصد ہے، دریائے سندھ دنیا میں پلاسٹک کے ساتھ دوسرا آلودہ دریا ہے جبکہ پہلے، تیسرے اور چوتھے آلودہ دریا چین کے ہیں، افریقہ میں دریائے نیل اس فہرست میں پانچویں نمبر پر ہے۔

 سینئر منیجر مانیٹرنگ اینڈ ایوی لیوایشن، سرسو نوید اسحاق میمن نے کہا کہ پاکستان کی تقریباً 90فیصد آبادی اور اس کی تین چوتھائی سے زیادہ معاشی سرگرمیاں بیسن کے اندر واقع ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملک کی 80 فیصد سے زیادہ قابل کاشت زمین سندھ کے پانی سے سیراب ہوتی ہے اور ملک کے 10 بڑے شہروں میں سے 9 اس کے 50 کلومیٹر کے اندر ہیں۔

محمد اکرم شیخ، جمیل سومرو، مرتضیٰ گھانگھرو اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔تقریب میں اساتذہ، طالبات، منتخب نمائندوں اور سول سوسائٹی کے اراکین کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔