قائد اعظم بطور وکیل،اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہ کرنے  والی شخصیت

1074

اسلام آباد 21 دسمبر (اے پی پی): وکیل کی حیثیت سے قائد اعظم  اپنے پیشے کے ضابطہ اخلاق پر سختی سے عمل کرتے تھے۔ وکالت کے پیشے میں اعلیٰ فکر، غیر معمولی ذہانت اور حاضر دماغی کے ساتھ ساتھ قناعت ، صبر استقلال اور تحمل کی بھی ضرورت ہوتی ہے یہ تمام خوبیاں قائد اعظم میں موجود تھیں”لنکن ان”سے فارغ التحصیل ہوکر بیرسٹر کی حیثیت سے قائد اعظم واپس ہندوستان پہنچے تو انہوں نے وکالت کے پیشے میں عملاً قدم رکھنے سے پہلے حالات کاجائزہ لیا۔ سندھ اس زمانے میں علیحدہ صوبہ نہیں تھا بلکہ بمبئی پریذیڈنسی کا ایک حصہ تھا ۔ عدالتِ عالیہ کا صدر مقام بمبئی تھا وکالت کے پیشے میں داخل قائد اعظم نے پیشے کے نوواردوں کی ایسی روایت سے الگ ہٹ کرنیاتجربہ کیا اور بمبئی کو اپنا ٹھکانہ بنا کر وکالت کا آغاز کیا۔

بطور وکیل جناح کی وکالت نے 1907ء میں بے پناہ شہرت پائی جس کی وجہ ماہرانہ طور پر کاوکس کا مقدمہ لڑنا تھا۔ یہ مسئلہ بمبئی کے میونسپل انتخابات میں کھڑے ہوئے جب یورپیوں نے اپنے کاوکس (سیاسی جماعت کا نمائندہ) کے ذریعے ہندوستانی عہدیداروں کو دھاندلی پر مجبور کیا تاکہ سرفیروز شاہ مہتہ کو کونسل سے باہر رکھا جاسکے۔ اگرچہ وہ اس مقدمہ کو جیت نہ سکے لیکن ان کے قانونی منطقوں اور وکالتی انداز نے انہیں مشہور کر دیا۔

ایک کامیاب وکیل کے طور پر اُن کی بڑھتی شہرت نے کانگریس کے معروف رہنما بال گنگا دھرتلک کی توجہ اُن کی جانب مبذول کرائی اور یوں 1905ء میں بال گنگا دھر تلک نے جناح کی خدمات بطور دفاعی مشیرِ قانون حاصل کیں تاکہ وہ اُن پر سلطنتِ برطانیہ کی جانب سے دائر کیے گئے نقصِ امن کے مقدمے کی پیروی کریں۔ جناح نے اس مقدمے کی پیروی کرتے ہوئے اپنے موکل کے حق میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ایک ہندوستانی اگر اپنے ملک میں آزاد اور خود مختار حکومت کے قیام کی بات کرتا ہے تو یہ نقصِ امن یا غداری کے زمرے میں نہیں آتا لیکن اس کے باوجود بال گنگا دھر تلک کو اس مقدمے میں قید با مشقت کی سزا سنائی گئی۔

نازک موقعوں پر وہ اصولوں ، پیشے کے احترام اورعزت ِ نفس کی قیمت پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرتے تھے خواہ اس کے نتائج کتنے ہی سنگین ہوتے ایک بار ایسا ہی ایک نازک موقع ہائیکورٹ میں کسی مقدمے کی پیروی کے دوران پیش آگیا تھا۔ اثنائے بحث،قائد اعظم کے اندر خطابت میں کسی قدر تُرشی اور سختی آگئی  جج صاحب کو یہ بات ناگوار گزری انہوں نے اسی وقت قائد اعظم کو تنبیہہ کی” مسٹر جناح !آپ اس وقت کسی تیسرے درجے کے جج کی عدالت میں خطاب نہیں کررہے ہیں”۔ قائد اعظم نے برجستہ جواب دیا…….جناب آپ کے سامنے بھی کوئی تیسرے درجے کا وکیل نہیں کھڑا ہے۔

اے پی پی/وسیم /حامد بلال

وی این ایس اسلام آباد