چینوٹ میں نہایت بے دردی سے چترالی خاتون اور اس کی  نو ماہ کی بیٹی کو بے دردی سے قتل کرنے کے حلاف تمام سیاسی  رہنماؤں کا احتجاجی جلسہ،قاتل کو سر عام پھانسی دی جائے مظاہرین کا مطالبہ

86

چترال،01 فروری (اے پی پی ) :چینوٹ میں چترال سے تعلق رکھنے والے خاتون اور اس کی نو ماہ کی بیٹی کی نہایت بے دردی سے قتل کرنے کے حلاف تمام سیاسی جماعتوں کا مشترکہ طور پر احتجاجی جلسہ منعقد ہوا جس کی صدارت مولانا اسر ار الدین الہلال خطیب بازار مسجد کررہے تھے۔

احتجاجی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ ضلع اپر چترال تورکہو سے  تعلق رکھنے والی ایک خاتون کا پنجاب کے ضلع چینوٹ میں شادی ہوئی تھی جسے اپنے شوہر نے نہ صرف قتل کیا بلکہ اس کی نو ماہ کی معصوم بیٹی کا بھی گلا کاٹا۔ انہوں نے اس بات پر نہایت افسوس اور برہمی کا اظہار کیا کہ اس درندہ صفت انسان نے نہ صرف خاتون کا گلا کاٹا بلکہ اس کے جسم کے بھی تکڑے کئے اور میڈیا کے سامنے بیان دیا کہ  لڑکی کی باپ نے مجھے کہا تھا کہ اس کا گلا کاٹو۔

مظاہرین نے کہا کہ اس قاتل کو جب میڈیا کے سامنے لایا گیا تو اس نے اپنے جرم کا اعتراف کیا اور الزام لگایا کہ عورت کا محلے میں کسی سے غلط تعلقات تھے جبکہ محلے کے لوگ اس خاتون کی پاک دامنی کا گواہی دیتے ہیں۔ جب اس سے صحافی نے پوچھا کہ اس معصوم بچی کا کس کے ساتھ ناجائز تعلقات تھے جس کا تم نے گلا کا ٹا تو اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔

انہوں نے ڈی پی او چترال کا شکریہ ادا کیا کہ خاتون پولیس افیسر نے نہایت مستعدی سے ان مجرمان کو پنجاب پولیس سے گرفتار کروایا۔ مقررین نے کہا کہ چترال میں جو دلال ویمن ٹریفکنگ یعنی خواتین کے اسمگلنگ میں ملوث ہیں ان کے حلاف دفعہ 144 لگایا جائے اور ان کے خلاف ویمن ٹریفکنگ کے دفعہ کے تحت مقدمات درج کئے جائے۔ مقررین نے چترال میں اس دھندے میں ملوث  ان دلالوں کا بھی شدید الفاظ میں مذمت کیا جو چند ٹکوں کے حاطر چترال کی بیٹیوں کا باہر غلط لوگوں کے ساتھ شادی کراتے ہیں اور ان سے پیسے بٹورتے ہیں  جن کی بعد میں یا تو طلاق ہوجاتا ہے یا  ان کی لاش چترال پہنچتی ہے۔ مقررین نے کہا کہ اس سے پہلے اب تک 70 خواتین  کا قتل ہوا ہے جن کا چترال سے باہر شادی ہوئی تھی۔

انہوں نے والدین پر بھی زور دیا کہ شادی کے وقت جو لوگوں کو کھانا کھلانے کیلئے دلہا سے پیسے لیتے ہیں اس کو نیچے اضلاع کے لوگ غلط رنگ دیتے ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے لڑکی خرید لی۔ اس دستور کو حتم ہونا چاہئے۔ مقررین نے کہا کہ اس میں بعض والدین کی بھی غلطی ہے جن کی بیٹیوں کا جب غلط جگہہ  شادی ہورہی ہو تو دعوت عزیمت  والے  ان  کو روکتے ہیں  تو والدین خود اپنی بیٹی علاج کے بہانے نیچے اضلاع لے  جاکر ان کی وہاں نکاح کرواتے ہیں۔ انہوں نے عوام پر زور دیا کہ وہ دعوت عزیمت کا دست و بازوں بنے اور تحفظ  حقوق چترال  کے ساتھ پورا  تعاون کرے کہ آئندہ اس قسم کے واقعات کی بر وقت روک تھام ہوسکے۔

اس موقع پر عبد الولی خان ایڈوکیٹ نے اعلان کیا کہ وہ ہر ماہ دعوت عزیمت  کی تنظیم کو دس ہزار روپے چندہ دے گا تاکہ یہ اپنا کام خوش اسلوبی سے جاری رکھ سکے۔

اس موقع پر انہوں نے ایک متفقہ قرارداد کے ذریعے چیف جسٹس آف پاکستان سے مطالبہ کیا کہ اس معاملے میں اس خود نوٹس لیکر اس ظالم کو  فوری طور پر سزائے موت دے تاکہ آئندہ کوئی  اتنی بے دردی سے عورتوں اور بچیوں کو قتل نہ کرے۔

جلسہ سے  شریف حسین آف کوغذی، اخونزادہ رحمت اللہ، عبدا لولی خان ایڈوکیٹ،عنایت اللہ اسیر، جندولہ خان لال، شبیر احمد صدر تاجر یونین،مولانا اسرار الدین الہلال اور دیگر نے اظہار حیال کیا۔  بعد میں یہ مولانا اسر ار الدین الہلا ل کی دعائیہ کلمات کے ساتھ احتتام پذیر ہوا۔