ماہرین کا زراعت کو مزید بہتر بنانے کیلئے جدید مشینری کے استعمال، پانی، بیج اور ماحول دوست کاشتکاری کے طریقوں پر عمل درآمد کی ضرورت پر زور

60

 

حیدرآباد،10 دسمبر (اے پی پی):  مثالی کاشتکاروں، ماہرین، مختلف وفاقی اور صوبائی محکموں کے ٹیکنوکریٹس اور مختلف زرعی تنظیموں سے وابستہ شخصیات نے زراعت کو مزید بہتر بنانے کیلئے جدید مشینری کے استعمال، پانی، بیج اور ماحول دوست کاشتکاری کے طریقوں پر عمل درآمد کی ضرورت پر زور دیا ہے جبکہ  بچوں اور نوجوانوں میں نیوٹریشن کی کمی کو مستقبل کیلئے شدید خطرات کی پیشنگوئی کی ہے۔

سندھ زرعی یونیورسٹی ٹنڈوجام میں لائیو سٹاک اینڈ فشریز کے تعاون سے بیج لگانے کے لیے جدید مشینری کے استعمال سے متعلق ورکشاپ اور قدرتی خوراک کے ذریعے بچوں اور خاندانوں میں غذائیت کی کمی سے بچاؤ کے حوالے سے   آگاہی سیمینار  کا  انعقاد  کیا  گیا۔

سیمینار  سے  خطاب کرتے ہوئے صوبائی وزیر لائیو اسٹاک اینڈ فشریزعبدالباری پتافی نے کہا کہ گزشتہ 72 سالوں میں زراعت میں عدم سرمایہ کاری کے باوجود ملک کی جی ڈی پی میں اب بھی صنعت سے زیادہ حصہ شامل   ہے۔ انہوں نے کہا کہ صوبے کے شعبہ صحت کے لیے 250 ارب روپے کا بجٹ ہے جبکہ محکمہ لائیو سٹاک کیلئے ساڑھے 6 ارب کی بجٹ ہے۔ انہوں نے کہا زراعت پر مطلوبہ توجہ اور سرمایہ کاری نہ ہونے کے باعث جی ڈی پی میں اس کا حصہ 53 فیصد سے کم ہو کر 21 فیصد رہ گیا ہے۔

سندھ زرعی یونیورسٹی ٹنڈوجام کی وائس چانسلر ڈاکٹر فتح مری نے کہا کہ سندھ میں غذائیت کی کمی کے باعث بالخصوص خواتین اور بچوں میں ذہنی اور جسمانی کمزوری بڑھ رہی ہے،  اس لئے  ڈیری اور زرعی مصنوعات کے استعمال اور بہتر ماحولیاتی نظام سےملک کو آئندہ نسلوں سے بہتر افرادی قوت دستیاب ہوگی۔انہوں نے کہا کہ بارانی اور کھاری زمینوں کو آباد کرنے اور زمین کی زرخیزی کو بہتر بنانے سے بہت سے زرعی مسائل حل ہو جائیں گے۔

وفاقی حکومت کے پلاننگ کمیشن کے رکن حامد جلیل نے کہا کہ ہم خود قدرتی نظام کو تباہ کر رہے ہیں۔ کاشت کے پرانے طریقوں کی وجہ سے ہم زیر زمین زرخیزی، زمین کی نمی اور کاربن کو فضا میں اڑا کر ختم کر رہے ہیں، فائدہ مند بیکٹیریا اور سوائل کو ہر طرح سے ہلاک کر رہے ہیں۔

 آن لائن خطاب میں آصف شریف نے کہا کہ ملکی زراعت نازک دور سے گزر رہا ہے، بڑھتی ہوئی آبادی اور زرعی کاشت کے حالات کو نہ سمجھنے کی وجہ سے زراعت کا مستقبل تنزلی کا شکار ہے۔

 ڈائریکٹر جنرل لائیو سٹاک ڈاکٹر نذیر حسین کلھوڑو نے کہا کہ غذائیت کی کمی نے خطرناک صورتحال پیدا کر دی ہے، جس سے آئندہ 20 سالوں میں 50 فیصد نوجوان نوکری اور کاروبار نہیں کر سکیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک میں  نوجوانوں کی شرح 64فیصد ہے جعکہ غذائیت کی کمی کی وجہ سے 20 سال بعد شرح 27فیصد رہ جائے گی۔

سندھ آبادگار بورڈ کے رہنما سید محمود نواز شاہ نے کہا کہ جدید زراعت بہتر نتائج دے سکتی ہے، اداروں کو سنجیدگی اختیار کرے تو ہم سرمایہ کاری اور تجربات کے لیے زمین دینے کو تیار ہیں۔

 چیمبر آف ایگریکلچر کے چیئرمین سید میران محمد شاہ نے کہا کاشتکار نئی ٹیکنالوجی کا خیرمقدم کرتے ہیں، ہم مختلف طریقوں سے تجربات کر رہے ہیں۔ لیکن اداروں کو زراعت سے متعلقہ مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا چاہیے۔

 انٹرنیشنل ٹریڈ سیننٹر( جی آر اے ایس پی) کی صوبائی رہنما شبنم بلوچ نے کہا کہ زراعت میں ویلیوچین اور لائیو سٹاک کی بائی پراڈکٹس کو ترجیح دینی چاہیے، دنیا میں زراعت نجی شعبہ چلا رہا ہے، اس لیے اب اسے انڈسٹری کے طور پر سمجھنا ہو گا۔

 اس موقع پر ڈاکٹر محمد اسماعیل کمبھر، ڈاکٹر عبداللہ سیٹھار اور دیگر نے خطاب کیا۔اس موقع پر ڈئریکتر جنرل ایگریکلچر ریسرچ نور محمد بلوچ، ڈاکٹر ذوالفقار یوسفانی، زاہد بھرگڑی، سید ضرار حیدر، سید نور محمد شاہ، نبی بخش سٹھیو، کریم تالپور، شریف نظامانی، آغا ظفر اللہ درانی، کمانڈر عاطف اور سمیت مثالی کسان، ماہر زراعت، مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے شرکت کی۔