چترال؛ ہیلپنگ ہینڈ کے زیر اہتمام موسمیاتی تبدیلی اور موحولیاتی تغیر پر ایک روزہ سیمینار کا انعقاد

19

چترال،15 نومبر(اے پی پی): چترال کے ایک مقامی ہوٹل میں ہیلپنگ ہینڈ کے زیر اہتمام موسمیاتی تبدیلی اور موحولیاتی تغیر پر ایک روزہ سیمینار منعقد ہوا جس کا موضوع تھا (Youth for a cooler planet)یعنی ٹھنڈے سیارے کیلئے نوجوان۔ سیمینار میں ماحولیاتی ماہر حامد احمد میر نے موسمیاتی تبدیلی کے ماحولیات پر اثرات اور موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے دنیا میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے بارے میں پریزنٹیشن پیش کی۔

 ماہرین نے کہا کہ دنیا کے امیر ترین ممالک میں ہزاروں کارخانے کاربن ڈائی آکسائیڈ اور زہریلی گیس خارج کرتے ہیں مگر پاکستان میں کارخانے نہایت کم ہیں اور پھر چترال میں کارخانے نہ ہونے کے برابر ہیں مگر اس کے باوجود ان ممالک میں کارخانوں سے نکلنے والے دھویں کی وجہ سے چترال جیسے پسماندہ اضلاع بھی متاثر ہورہے ہیں۔ ماہرین نے کہا کہ گلوبل وارمنگ یعنی عالمی حدت کی وجہ سے چترال کے پہاڑوں پرصدیوں پرانے گلیشیر پھٹ جاتے ہیں ۔

 ماہرین نے نوجوان نسل پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ دنیا کو عالمی حدت اور موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات سے بچانے کیلئے زیادہ سے زیادہ پودے لگائیں۔

سیمینار کے دوران مختلف شعبوں کے ماہرین نے پینلسٹ کے طور پر گفتگو کی اور شرکاءکے سوالات کے جوابات بھی دیئے ۔ شرکاءنے گلوف ٹو پراجیکٹ پر اعتراض کیا کہ وہ آٹھ روپے کی خطیر رقم سے چلنے والا ایک ایسا منصوبہ ہے کہ پہاڑوں پر گلیشیر زپھٹنے کے نقصانات سے لوگوں کو بچایاسکے مگر وہ صرف زبانی جمع خرچ پر پیسہ خرچ کرتے ہیں مگر عملی کام نظر نہیں آتا جس پر چترال پریس کلب کے صدر ظہیر الدین عاجز نے کہا کہ یہ آدھا سچ ہے ہمیں گلوف ٹو پراجیکٹ کے تعاون سے حال ہی میں چترال ، سوات اور دیر میں مختلف علاقوں کا دورہ کروایا گیا جہاں سیلاب سے متاثرہ علاقوں کو مزید تباہی سے بچانے کیلئے گلوف ٹو پراجیکٹ کے تحت حفاظتی دیواریں، آبپاشی کی نہریں، کمیونٹی ہال اور ارلی وارننگ سسٹم کی مشنری بھی لگائی گئی ہے ۔

سیمینار میں بتایا گیا کہ چترال کے لوگ کھانا پکانے اور سردیوں میں خود کو گرم رکھنے کیلئے اکثر لکڑی جلاتے ہیں جس سے ایک طرف اگر دھواں اٹھتا ہے تو دوسری جانب اس سے جنگلات پر بھی بہت زیادہ بوجھ پڑتا ہے جس سے ماحولیات پر نہایت منفی اثرات پڑتے ہیں۔ حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ چترال کے لوگوں کو متبادل ایندھن کے طور پر اگر سستی بجلی یا گیس فراہم کی جائے تو جنگلات پر بوجھ کم سے کم ہوگا اور ہم قدرتی آفات کی صورت میں نقصانات سے بھی بچ سکتے ہیں۔

ماہرین نے بتایا کہ جب بھی کوئی قدرتی آفت آتی ہے تو اس میں بچے اور خواتین زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اپنے ماحول کو ان منفی اثرات سے بچانے کیلئے کلیدی کردار ادا کریں۔ اس سیمینار میں کثیر تعداد میں خواتین و حضرات نے شرکت کی۔