اقوام متحدہ، 25 جون (اے پی پی): سفارتی روابط اور بات چیت ہی تمام مسائل کے حل کا بہترین ذریعہ ہیں۔ ماضی میں سفارت کاری نے کامیابیاں دی ہیں اور اگر سیاسی عزم موجود ہو تو یہ ایک بار پھر کامیابی دے سکتی ہے۔
سلامتی کونسل کے اجلاس میں قرارداد(2015) 2231 جے سی پی او کے حوالے سے بریفنگ کے دوران اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب سفیر عاصم افتخار احمد نے اپنے بیان میں کہا کہ پاکستان پختہ یقین رکھتا ہے کہ تمام تنازعات کا حل اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قانون، بشمول خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے احترام، کے مطابق ہونا چاہیے۔ ہم تمام فریقین سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو پورا کریں اور مزید کشیدگی سے گریز کریں۔
سفیر نے بتایا کہ جے سی پی او اے ایک منفرد معاہدہ تھا ، جو مکالمے، سفارت کاری اور حقیقت پسندی پر مبنی سوچ کا مظہر تھا۔ اس معاہدے نے تمام فریقین کے خدشات کو دور کرنے کے لیے ایک واضح روڈ میپ فراہم کیا اور ان کی ذمہ داریوں اور فرائض کی وضاحت کی۔ معاہدہ بہتر انداز میں آگے بڑھ رہا تھا، لیکن بدقسمتی سے اسے یکطرفہ طور پر سبوتاژ کر دیا گیا، جس کے نتیجے میں متعدد پیچیدگیاں پیدا ہوئیں جبکہ موجودہ مسائل کے پرامن حل اور قرارداد 2231 کے مکمل اور مؤثر نفاذ میں مزید رکاوٹ نہیں بننے دینا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ایران کے جوہری مسئلے کے حل کے لیے پرامن ذرائع، سفارتی روابط اور مسلسل بات چیت کی حمایت کا اعادہ کرتے ہیں۔ پاکستان جے سی پی او اے کے تحفظ اور تجدید، یا کسی متبادل اور اتنے ہی ٹھوس معاہدے کی حمایت کرتا ہے جو تمام فریقین کے لیے قابل قبول ہو۔آئی اے ای اے وہ ادارہ ہے جو رکن ممالک کی جوہری ذمہ داریوں پر عملدرآمد کی نگرانی کا مجاز ہے۔ یہ کام اسے غیرجانبدار، تکنیکی اور شفاف انداز میں انجام دینا چاہیے۔ آئی اے ای اے کو اپنی قانونی ذمہ داریاں بغیر کسی رکاوٹ کے ادا کرنے کا موقع دیا جانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ہم فریقین سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ جنگ بندی کو برقرار رکھیں اور مستقل جنگ بندی قائم کریں تاکہ دوبارہ بات چیت اور آئی اے ای اے کی نگرانی کی سرگرمیاں بحال ہو سکیں۔
سفیر عاصم کا کہناتھا کہ میں کونسل کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ چین، پاکستان اور روس کی جانب سے اتوار کو پیش کی گئی ابتدائی قرارداد کے مسودے کو ہم نے حالیہ پیش رفت، خصوصاً جنگ بندی کے تناظر میں اپ ڈیٹ کر کے دوبارہ کونسل اراکین کو فراہم کر دیا ہے۔ اس قرارداد کا ایک بنیادی مقصد جنگ بندی کو یقینی بنانا تھا، اس کے ساتھ ساتھ ایرانی جوہری مسئلے کے سفارتی حل اور بین الاقوامی قانون کے احترام کو فروغ دینا بھی تھا۔ہم قرارداد کے مسودے پر دیگر رکن ممالک کے ساتھ تعمیری رابطے جاری رکھیں گے تاکہ ایک متفقہ نتیجے تک پہنچا جا سکے جو جنگ بندی، بات چیت اور سفارتی روابط کی حمایت میں سلامتی کونسل کا مؤقف ظاہر کرے۔