اسلام آباد،13اکتوبر (اے پی پی):قومی اسمبلی میں حالیہ بارشوں اور سیلاب سے ہونے والے نقصانات پر بحث جمعرات کو بھی جاری رہی اور اس دوران اراکین نے قدرتی آفات سے نمٹنے کے لئے مربوط منصوبہ بندی سمیت کئی تجاویز پیش کیں جبکہ حکومت کی طرف سے ایوان کو آگاہ کیا گیا کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں کسانوں کو فصلوں کے لئے مفت بیج فراہم کئے جائیں گے، ملکی تاریخ میں پہلی بار حکومت نے ملک بھر میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں کسانوں کو فصلوں کے لئے مفت بیج فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے،وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق نے پانچ ارب روپے این ڈی ایم اے کو منتقل کردیئے ہیں جس سے بیجوں کی خریداری کا عمل شروع ہو جائے گا۔ مزید چار ارب روپے کا بندوبست کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس پروگرام میں وفاق اور صوبے پچاس پچاس فیصد حصہ دار ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ سیلاب زدگان کی امداد کا عمل قومی جذبے کے تحت اور سیاست سے بالاتر ہوکر آگے بڑھایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت ہاریوں اور کاشتکاروں کو زیادہ سے زیادہ ریلیف فراہم کرنے کے لئے کام کر رہی ہے۔
بحث میں حصہ لیتے ہوئے جی ڈی اے کے پارلیمانی لیڈر غوث بخش مہر نے کہا کہ سندھ اور بلوچستان کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کی بحالی پر توجہ دی جائے، میرے حلقے میں 9 لوگ مر گئے ہیں، لوگوں کے گھر تباہ ہوگئے ہیں، سیلاب کے معاملے پر سیاست کو چھوڑ کر قوم کی خدمت کرنی چاہیے۔
کشور زہرہ نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ ایم کیو ایم جمہوریت کے لئے قربانیاں دے رہی ہے، قانون سازی میں ہمیں نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔ جمال الدین نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ حالیہ سیلاب کی ملکی تاریخ میں مثال نہیں ملتی، متاثرہ افراد کو درپیش مسائل کے حل کے لئے جامع اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ 2018ء سے وزیرستان کے تباہ شد گھروں کے مالکان کو معاوضہ جات ادا نہیں کئے گئے۔ سیلاب سے متاثرہ افراد کی امداد کا طریقہ کار ایوان کے سامنے رکھا جائے۔ ہر صوبے کے لئے تین تین ہیلی کاپٹرز خریدے جائیں تاکہ وہ قدرتی آفت کے سلسلہ میں لوگوں کی مدد کر سکیں۔
میر منور علی تالپور نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ میرپور خاص میں سیلاب سے 14 لوگ مر گئے۔ 2010ء کے سیلاب سے اس بار شدید بارش اور سیلاب آیا ہے۔ اس وقت متاثرہ علاقوں میں پانی کھڑا ہے جس سے مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ بے گھر ہوگئے ہیں۔ مویشیوں کو بھی بھاری نقصان ہوا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ سندھ میں سولر ٹیوب ویلز کے ذریعے پانی نکالا جائے، لاکھوں لوگوں کے گھر تباہ ہوگئے، مال مویشی مر گئے، ان متاثرین کو گھر بنا کر دیئے اور کھادیں مہیا کی جائیں۔
رکن قومی اسمبلی قادر مندوخیل نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ وزیر خارجہ نے سیلاب زدگان کی بین الاقوامی امداد کے حوالے سے اہم کردار ادا کیا ہے۔ پوری دنیا کی پاکستان کی طرف توجہ مبذول ہے، اس وقت کئی علاقوں میں 14 سے 16 فٹ تک پانی موجود ہے۔ متاثرہ علاقوں میں فصلوں اور سبزیوں کی کاشت نہیں ہو سکی ، جس سے مستقبل میں خوراک کی کمی کے خدشات سر اٹھا رہے ہیں۔ بلوچستان میں 21 ڈیم تباہ ہوگئے ہیں، ان کی انکوائری ہونی چاہیے کہ اتنے کمزور ڈیم کس طرح بنائے گئے تھے۔ قادر مندوخیل نے کہا کہ سابق وزیراعظم عمران خان کس حیثیت سے سرکاری ہیلی کاپٹر استعمال کر رہا ہے۔ متعلقہ اداروں کو اس کا نوٹس لینا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت سندھ اور بلوچستان کو آفت زدہ قرار دینے کا اعلان کرے اور متاثرین کے یوٹیلٹی بلز اور قرضے معاف کئے جائیں۔
رکن قومی اسمبلی آسیہ عظیم نے کہا کہ بدقسمتی سے ماحولیاتی تبدلیوں سے نمٹنے کے لئے ہم نے مناسب اقدامات نہیں کئے جس سے حالیہ سیلاب سے زیادہ نقصان ہوا، اس وقت ہمیں 2005ء کے زلزلہ کی طرح متحد اور متفق ہوکر کام کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ بیرونی امداد کی تقسیم اور دیگر تفصیلات سے ایوان کو آگاہ کیا جائے۔ موجودہ حالات میں ہمیں جنگی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ انفراسٹرکچر کی بحالی اور نوجوانوں اور خواتین کے روزگار کی بحالی کے لئے اقدامات ہونے چاہئیں۔ موجودہ حالات میں غیر معمولی انداز میں کام کرنا ہوگا۔ آسیہ عیم نے قدرتی آفات میں طلباء و طالبات اور نوجوانوں کو تربیت دینے کی تجویز بھی پیش کی۔
رکن اسمبلی نصیبہ چنا نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ سیلاب کے دوران سندھ حکومت نے جو کام کیا ہے کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے، سیلاب سے پورا سندھ متاثر ہوا ہے اس لئے بحالی اور تعمیر نو میں وقت لگے گا۔ انہوں نے کہا کہ سیلاب سے متاثرہ افراد اور علاقوں کی امداد کے لئے سب کو مل کر کام کرنا چاہیے۔ جی ڈی اے کی رکن سائرہ بانو نے کہا کہ سیلاب کی صورتحال پر بحث ہو رہی ہے مگر اس میں وزراء اور ارکان کی عدم دلچسپی قابل افسوس ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ بارشیں غیر معمولی تھیں لیکن انتظامی کوتاہیوں کا بھی اس میں عمل دخل ہے۔ سیلاب متاثرین کو امداد کی فراہمی کا طریقہ کار شفاف ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ سیلاب کے بعد متاثرہ علاقوں میں بیماریاں پھوٹ رہی ہیں، اس حوالے سے اقدامات ہونے چاہئیں۔
ایم کیو ایم کے انجینئر صابر حسین قائمخانی نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ قدرتی آفت کے ساتھ ساتھ انتظامی کوتاہیوں کی وجہ سے حالیہ سیلاب سے زیادہ نقصان ہوا۔ اگر بروقت پالیسیاں بنائی جاتیں اور اقدامات کئے جاتے تو نقصان میں کمی ممکن تھی۔ انہوں نے کہا کہ پورے پاکستان کو سیلاب سے متاثرہ افراد کی امداد کے لئے آگے آنا چاہیے۔ 18 ہزار کے قریب سکولوں کی عمارتیں تباہ ہوگئی ہیں، اس سے قبل کوویڈ کی وجہ سے تعلیمی نظام متاثر ہوا تھا۔ تعلیمی اداروں کی جلد بحالی کے لئے اقداما ضروری ہیں۔
جماعت اسلامی کے رکن قومی اسمبلی مولانا عبدالاکبر چترالی نے کہا کہ سیلاب متاثرین کو ریسکیو اور ریلیف پہنچانے میں پاک افواج نے اہم کردار ادا کیا جبکہ الخدمت اور ایدھی سنٹر نے بھی ریسکیو اور بحالی کے کاموں میں بنیادی کردار ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ سیلاب زدگان کے مسائل و مشکلات کا ازالہ کے لئے تمم سیاسی جماعتوں کو مل کر کام کرنا چاہیے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ متاثرین کے زرعی قرضے معاف کئے جائیں۔ انہوں نے تجویز دی کہ ایک پارلیمانی کمیٹی قائم کی جائے جو متاثرہ علاقوں کے ایم این ایز پر مشتمل ہو اور ان کے ذریعے متاثرین میں امداد تقسیم کی جائے۔
پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی شاہدہ رحمانی نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ اس وقت ملک نازک ترین دور سے گزر رہا ہے، ہمیں ایک قوم بن کر متاثرین کی امداد کے لئے کام کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے جس انداز میں عالمی فورمز پر پاکستان کا مقدمہ لڑا ہے اس کے نتیجہ میں دنیا کی توجہ پاکستان کی طرف مبذول ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ امداد کی نگرانی کے لئے سپیکر کی قیادت میں نگرانی کا نظام ہونا چاہیے۔ یہ سیاست کرنے کا نہیں بلکہ خدمت کرنے کا وقت ہے۔
رکن قومی اسمبلی ابوبکر نے کہا کہ سابق حکومت کے ایک وزیر کی نادانی کی وجہ سے پی آئی اے کو آج بھی مشکلات کا سامنا ہے، یورپ اور امریکہ میں پی آئی اے کی پروازیں بند ہیں۔ ملائیشیا میں ہمارے دو جہاز کھڑے ہیں جن پر ماہانہ دو لاکھ کے قریب اخراجات آرہے ہیں۔ ایوی ایشن کے متعلقہ حکام اس حوالے سے ایوان کو آگاہ کریں۔
جمعرات کو قومی اسمبلی میں وقفہ سوالات اور ایجنڈے میں شامل اہم امور نمٹائے گئے جبکہ حالیہ سیلاب سے پیدا ہونے والی صورتحال پر بحث جاری رہی۔ سیلاب کی صورتحال پر بحث (کل) جمعہ کو بھی جاری رہے گی۔ ڈپٹی سپیکر زاہد اکرم درانی نے قومی اسمبلی کا اجلاس (آج) جمعہ کی صبح 11 بجے تک ملتوی کردیا۔