بڑھتی آبادی کو خوراک کی کمی کے خطرات سے بچانے کیلئے پائیدار زراعت کے فروغ کی ضرورت ہے ؛ زرعی ماہرین

40

حیدرآباد، 14 اپریل (اے پی پی):ملک کے زرعی علوم کے ماہرین نے بڑھتی آبادی کو خوراک کی کمی کے خطرات سے بچانے کیلئے پائیدار زراعت کے فروغ کی تجویز دی ہے  اور کہا ہے کہ نئی اجناس کی کمی،  زرعی زمین پر آبادیاں روکنے ، ناقص بیج کی روک تھام ، موسمی تبدیلیوں کے اثرات نے فصلوں کی پیداوار کو کمزور کیا ہے۔

آج بدھ کو سندھ زرعی یونیورسٹی ٹنڈوجام میں یونیورسٹی آف ایگریکلچر فیصل آباد کے سابق وائیس چانسلر اور نیوکلیئر انسیٹیوٹ آف ایگریکلچر کے سابق ڈئریکٹر جنرل پرفیسر ڈاکٹر اقرار احمد خان نے پاپولر لیکچر سیریز کے حوالے سے “پاکستان میں عالمگیریت اور زراعت ، مواقع اور چیلنجوں” کے عنوان پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عالمی اقوام کو موسمیاتی تبدیلی اور آبادی کو پیٹ بھر کے کھانا کھلانے کے لئے مختلف چیلینجز کا سامنہ ہے جبکہ یہ آبادی 2050 تک 10 ارب یا اس سے زیادہ تک پہنچ جائے گی۔

پروفیسر ڈاکٹر اقرار احمد خان نے اپنی خطاب میں پانی کے موجود ذخائر، زمین کی پیداواری صلاحیت، موسمی تبدیلی، تعطل پیداوار، فصلوں کے بعد ہونے والے نقصانات اور مارکیٹنگ، معاشرتی تفاوت، نوجوانوں اور زراعت سے متعلق موضوعات پر روشنی ڈالی اور صنف، غذائیت اور غذائی تحفظ کے حوالے سے زرعی پالیسی میں شامل کرنے کی تجویز دی.

 پروفیسر ڈاکٹر اقرار احمد نے خالص بیج، خاص طور پر گندم ، چاول اور دیگر اناج کی فصلوں کی کی ترقی پر زور دیا  اور کہا کہ فصلوں کی کاشت کے ناقص طریقے،  بے تحاشا لاگت ، پیداوار اور کیمیائی زہریات سے متاثر فصلوں، سبزیوں، فروٹ کی عالمی مارکیٹ میں طلب کم ہو رہی ہے اور ہمارے زرعی اشیاء معیار کے لحاظ سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں اور سب سے زیادہ آبادگار اور عام خریدار متاثر ہو رہا ہے، جبکہ بڑھتی ہوئی آبادی کو خوراک کی فراہمی کے وجہ سے عالمی برادری خوفزدہ نظر آ رہی ہیں۔

 انہوں نے کہا سرد جنگ میں دو بڑی طاقتوں امریکہ اور روس کے مابین تھی۔ لیکن اب لگتا ہے کہ چین ایک کیپٹل بلاک کے طور پر ابھر رہا ہے ، جو عالمی منڈی پر حاوی ہے۔ انہوں نے کہا 1960 کے سبز انقلاب سے لے کر اب تک پاکستان میں زراعت کی ترقی کی تصویر دکھائی گئی ہے، جبکہ ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود ہم بچوں میں بڑھتی غذائیت پر بھی تشویش کا شکار ہیں، انہوں نے کہا مشاہدے میں یہ ثابت ہوا ہے کہ 40 فیصد بچےغذائیت کی کمی سے دوچار ہیں اور ان کو جسمانی کمزوری لاحق ہے، جبکہ آج بھی ملک کے 70 فیصد بچے ناشتہ نہیں کرسکتے۔ اس لئے پالیسی سازوں کو اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ حقیقت میں روایتی طور پر لوگ گوشت خور ہیں اور انہیں گوشت کے ذریعے کیلوری کی ضرورت ہے۔ صرف پولٹری ہی 70 فیصد گوشت مارکیٹ میں مہیا کرتی ہے۔ دودھ کی مصنوعات کے علاوہ لوگ سبزیاں بھی کھانے سے کیلوری حاصل کرتے ہیں۔

 پروفیسر اقرار احمد خان نے بیج کی مختلف اجناس کی توسیع و ترقی کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چونکا دینے والی بات ہے کہ کاشتکاروں کو جو بیج ملتے ہیں جو کبھی کبھی اگتے ہی نہیں ہیں۔ دنیا میں اس کی کوئی مثال نہیں ہے کہ بیج پیدائشی صلاحیت نہ ہو۔ انہوں نے کہا ہمیں موسم ، پانی اور مٹی کی زرخیزی جیسے معاملات کو دیکھنا ہوگا ۔

 سندھ زرعی یونیورسٹی ٹنڈوجام کے وائیس چانسلر ڈاکٹر فتح مری نے کہا کہ زرعی زمینوں پر آبادیاں بغیر کسی روک ٹوک کے بڑھ رہی ہیں، اور ایسی آبادیاں زرخیز زمین کو کھا رہی ہیں،  جس پر قانون سازی اور عملدرآمد کی ضرورت ہے۔  انہوں نے کہا کہ موسمی تبدیلی، مارکیٹنگ کی اتا چڑھاؤ اور اب بیج کے ناقص نتائج جیسے ابھرتے ہوئے مسائل کی وجہ سے کسان کمزور ہو رہے ہیں۔ انہوں نے یونیورسٹی کے گریجوئیٹس اور نوجوان محققین کو ان موضوعات پر جدید تحقیق کرنے کی تجویز دی، تاکہ فصلوں کی پیداوار پر ہونے والی تبدیلیوں اور اس کے اثرات کی پیمائش کرسکیں۔

 انہوں نے کہا کہ ہمیں مجموعی حیاتیاتی تنوع کے علاوہ مٹی کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ اور کیمیائی استعمال کے اثرات کو بھی دیکھنا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ بیجوں کی نئی اقسام کے سلسلے میں گندم اور کپاس کو متعدد چیلنجوں کا سامنا ہے۔ لہذا ، سرکاری اور نجی شعبے کے ادارے مستند بیجوں کی تیاری کے لئے ہم آہنگی کو مضبوط بنائیں، تاکہ ہم کاشتکاروں کی ضروریات کو پورا کرسکیں، انہوں نے کہا کہ ملک میں غذائیت کی کمی بھی ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ بھتر زرعی اجناس کے ذریعے زرعی یونیورسٹی خاص طور پر دیہی علاقوں میں کم عمر کے بچوں میں غذائی قلت کے معاملات پر توجہ دینے کے لئے پرعزم ہیں۔

 پروفیسر ڈاکٹر محمد اسماعیل کمبھر نے کسانوں ماہرین، طلباء کو اس طرح کی لیکچرز کے ذریعے علم حاصل کرنے اور مزید پیداوار حاصل کرنے کے اپنی تحقیق کی روشنی آگے بڑھنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ صوبہ سندھ کے مختلف اضلاع کے وسیع و عریض علاقوں میں بہت ساری وجوہات کی وجہ سے زرخیزی کم ہو رہی ہے جس میں بنیادی طور پر سمندر کا آگے بڑھ جانا ، پانی اور زمین کے انتظام میں کسانوں میں کم علمی ہے۔

اس موقع پر سندھ ایگریکلچر ریسرچ سندھ کے ڈئریکٹر جنرل نور محمد بلوچ، سندھ آبادگار بورڈ کے رہنما سید ندیم ساھ جاموٹ، یونیورسٹی کے پروفیسرز، اساتذھ، گریجویٹس ، نوجوان محققین بھی موجود تھے۔