یوم استحصال کے موقع پر انفارمیشن سروس اکیڈمی میں پینل مباحثہ کا انعقاد، تنازعہ کشمیر کو بات چیت کے ذریعے ہی حل کیا جا سکتا ہے؛ ماہرین کا اظہار خیال

17

اسلام آباد،5اگست  (اے پی پی):بھارت کے غیرقانونی زیرتسلط جموں و کشمیر کی حالت زار کے بارے میں پینل مباحثے میں ماہرین نے اتفاق کیا ہے کہ بات چیت اور رابطوں کے ذریعے ہی تنازعہ کشمیر کو حل کیا جا سکتا ہے۔

 انفارمیشن سروس اکیڈمی (آئی ایس اے) کے زیراہتمام یہ پینل مباحثہ جمعہ کو بھارت کے زیرتسلط جموں و کشمیر کے عوام کے خلاف بھارتی مظالم کی مذمت اور 5 اگست 2019 کے غیرقانونی بھارتی اقدام کے خلاف اظہار یکجہتی کیلئے منائے جانے والے یوم استحصال کے موقع پر آئی ایس اے آڈیٹوریم میں منعقد کیا گیا۔ تین سال قبل بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت نے بھارتی آئین کی شق 370 اور 35-A کو منسوخ کرتے ہوئے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر دیا تھا۔

سابق خارجہ سیکرٹری ریاض محمد خان نے مسئلہ کے بنیادی اسباب پر روشنی ڈالتے ہوئے کشمیر کو 1947 کی تقسیم کا نامکمل ایجنڈا قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانیوں کیلئے کشمیر صرف اصولی مؤقف کا معاملہ ہی نہیں بلکہ کشمیری بھائیوں کے ساتھ ان کی دلی اور جذباتی وابستگی بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر پر پاکستان کا تاریخی مؤقف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور شملہ معاہدہ کی دو مضبوط بنیادوں پر ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے مودی کی قیادت میں بی جے پی کی حکومت کے دوران دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کے عمل کی بحالی کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔ انہوں نے کہا کہ کانگریس کا کشمیر کی خودمختاری اور آزادی پر مؤقف مختلف ہے۔

 انہوں نے ان دلائل کے ساتھ اپنی بات کا اختتام کیا کہ مسئلہ کشمیر کیلئے مؤثر انداز میں آواز بلند کرنے کیلئے پاکستان کو سیاسی ہم آہنگی اور معاشی استحکام کی ضرورت ہے۔ انہوں نے پاکستان اور بھارت کے درمیان طاقت کے توازن کے فرق کی طرف اشارہ کیا اور سوال اٹھایا کہ اس میں بتدریج اضافہ کیوں ہوا ہے اور اپنا جواب دیتے ہوئے کہا کہ میرے خیال میں اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ پاکستانی مغرب اور جدیدیت کے بارے میں الجھن کا شکار ہیں، ہمیں تعلیم، سائنس اور ٹیکنالوجی کو فروغ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ محض کسی کے عقیدہ کی بنیاد پر ترقی حاصل نہیں کی جا سکتی۔

قائداعظم یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر منور حسین نے تنازعہ کشمیر کے حوالے سے بین الاقومی تعلقات کے افکار اور طاقت کے پہلوؤں کا علمی انداز میں جائزہ لیتے ہوئے سوال اٹھایا کہ مختلف مکاتب فکر کے بنیادی اصول بین الاقومی معاشرے کے خواص ہوتے ہیں۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا کشمیر بین الاقوامی معاشرہ کا حصہ نہیں ہے؟ انہوں نے اس حوالے سے بھارت میں بی جے پی کی حکومت کی طرف سے لسانی اور مذہبی اقلیتوں کی حالت زار اور ان کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کا بھی حوالہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ  دلتوں، سکھوں اور ناگالینڈ کے لوگوں سے جس طرح کا سلوک روا رکھا جاتا ہے وہ کسی بھی ڈھکا چھپا نہیں، جمہوریت کے تصورات کو روندا جا رہا ہے۔ انہوں نے اسلامی تعاون تنظیم پر زور دیا کہ وہ اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرے کیونکہ طاقت کے کئی مراکز ابھرنے کے نتیجے میں ”پاور ویکیوم” پیدا ہوا۔

قبل ازیں آئی ایس اے کی ارفع رزاق نے 5 اگست 2019 کے اقدامات کے نتیجے میں کشمیر میں سیاسی و سماجی تبدیلیوں کا جائزہ پیش کیا۔ انہوں نے ان تبدیلیوں کے بعد پاکستان کی حکومت کی جانب سے اٹھائے جانے والے اقدامات پر بھی روشنی ڈالی۔